مسلم تحفظات پر بی جے پی کی بے چینی

   

اس ملک کی آزادی میں ہر سماج اور ہر طبقہ کے برابر اور مساوی رول ادا کرنے والے مسلمان آزادی کے سات دہوں بعد اس ملک میں انتہائی کسمپرسی کی حالت کا شکار ہوگئے ہیں۔ سرکاری ملازمتوں میں ‘ تعلیم کے شعبہ میں اور سیاسی میدان کے علاوہ زندگی کے تقریبا ہر شعبہ میں مسلمان پیچھے ڈھکیل دئے گئے ہیں۔ انہیں نہ روزگار ملتا ہے اور نہ تعلیم کے مواقع دوسروں کی طرح وسیع دستیاب ہیں۔ سیاسی میدان میں ان کی نمائندگی کو مسلسل اور متواتر کم کیا جاتا رہا ہے اور نتیجہ یہ نکلا کہ آج مسلمان اس ملک میں پسماندہ بطقات سے بھی پیچھے ہوگئے ہیں۔ ملازمتوں اور روزگار کے نام پر ٹھیلہ بنڈیا ڈھکیلنے پر مجبور ہیں۔ پان شاپس چلانے پر مجبور ہیں یا پھر چھوٹے موٹے کاروبار کرتے ہوئے اپنا گذر بسر کرتے ہیں۔ سرکاری ملازمتوں میں مسلم ملازمین کا تناسب مسلسل گھٹتے ہوئے محض ایک تا دو فیصد رہ گیا ہے ۔ تعلیم کے شعبہ میں بھی مسلمان دوسرے برادران وطن سے کافی پیچھے ہوگئے ہیں۔ اعلی تعلیم میں بھی ان کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے ۔ ایک اور حقیقت یہ بھی ہے کہ سماجی ‘ معاشی اور تعلیمی شعبہ میں دوسروں سے پیچھے رہنے والے کمزورا ور پسماندہ طبقات کو تحفظات حاصل ہیں۔ تحفظات کے معاملے میں یہ بھی حقیقت ہے کہ جتنے بھی طبقات اور قبائل وغیرہ کو تحفظات حاصل ہیں وہ تمام ہندو ہیں ۔ ان میں کوئی مسلمان نہیں ہے ۔ اب جبکہ کچھ گوشوں سے مسلمانوں کی سیاسی ‘ سماجی ‘ معاشی اور تعلیمی حالت کو دیکھتے ہوئے انہیں بھی تحفظات فراہم کرتا ہے یا اس کی وکالت کرتا ہے تو بی جے پی بے چین ہوجاتی ہے اور وہ مسلم تحفظات کی مخالفت کرتی ہے ۔ وہ کہتی ہے کہ مذہب کی بنیاد پر تحفظات نہیں دئے جاسکتے ۔ حقیقت یہ ہے کہ صرف مسلمانوں کو محروم کرنے کیلئے ہی مذہب کی بنیاد پر ہی تحفظات دئے جا رہے ہیں۔ مسلم دشمنی میں سب سے آگے رہنے کیلئے بی جے پی کے کئی قائدین مسلم تحفظات کی مخالفت کرتے ہیں اور اپنے اقتدار میں ان تحفظات کو ختم کرنے کی دھمکیاں تک بھی دینے لگتے ہیں۔ ان میں تلنگانہ بی جے پی کے قائدین بھی شامل ہوگئے ہیں اور وہ بھی یہی زبان بول رہے ہیں۔
بی جے پی کے ریاستی قائدین میں بنڈی سنجے اور دوسرے ایسے رہے ہیں جنہوں نے مسلم تحفظات کے مسئلہ پر کئی مخالفانہ بیانات دئے ہیں اوران تحفظات کو ختم کرنے کی بات کہی ہے ۔ تاہم ریاستی صدر جی کشن ریڈی جو مرکزی وزیر بھی ہیں وہ ایک الگ شبیہہ رکھتے تھے ۔ بی جے پی کے اہم قائدین میں رہتے ہوئے بھی وہ شدت پسندی کے بیانات دینے سے گریز کرتے تھے ۔ تاہم ایسا لگتا ہے کہ اسمبلی انتخابات کے پیش نظر وہ بھی اپنے اصل رنگ کو ظاہر کرنے لگے ہیں۔ انہوں نے ایک بیان میں تلنگانہ میں اقتدار حاصل ہونے پر مسلم تحفظات کو ختم کرنے کی بات کہی ہے اور کہا کہ حیدرآباد میںبھی بلڈوزر قانون لاگو کردیا جائیگا ۔ حقیقت یہ ہے کہ سارے تلنگانہ میں بی جے پی کہیں بھی مقابلہ میں نہیں رہ گئی ہے ۔ صرف دو چار حلقوں میں اپنا اثر رکھتے ہوئے اس طرح کی باتیں کرنا در اصل سماج میں نفرت پھیلانے کی کوشش ہے اور ہندو نظریات کے حامل ووٹرس کو اپنی جانب راغب کرنے کیلئے ایسے بیانات دئے جا رہے ہیں۔ اس سے بی جے پی کی مسلم دشمنی ایک بار پھر ثابت ہوگئی ہے ۔ کئی قائدین مخالف مسلم بیانات دیتے ہوئے اپنے ذہن کو آشکار کرتے ہیں لیکن کشن ریڈی نے نہ صرف مسلم تحفظات کو ختم کرنے کی بات کہی بلکہ بلڈوزر قانون لاگو کرنے کا بھی اعلان کردیا ۔ یہ انتہائی منفی اور مفاد پرستانہ سوچ ہے لیکن تلنگانہ کی سیاست میں اس طرح کی بیان بازی کے باوجود کشن ریڈی یا بی جے پی کوئی سیاسی فائدہ حاصل نہیں کرپائیں گے ۔
جہاں تک تلنگانہ کے مسلمانوں اور اقلیتوں کا سوال ہے تو انہیں تحفظات کے مسئلہ کو فراموش نہیں کرنا چاہئے ۔تحفظات حاصل کرتے ہوئے مسلمان ہر شعبہ میں اپنی رسائی کی رفتار کو تیز کرسکتے ہیں۔ ترقی کی منزلیں زیادہ رفتار سے طئے کرسکتے ہیں۔ مسلمانوں کو ذہن نشین رکھنا چاہئے کہ ریاست میں چار فیصد مسلم تحفظات سے کتنے نوجوانوں کو فائدہ ملا ہے اور کتنے خاندانوں کی زندگیاں بہتر ہوئی ہیں۔ تحفظات کا وعدہ کرتے ہوئے دھوکہ دینے اور وعدوں سے منحرف ہونے والوں اور تحفظات کی علی الاعلان مخالفت کرنے والوں کے تعلق سے مسلمانوں کو ایک جامع اور مضبوط حکمت عملی اختیار کرنے کی ضرورت ہے ۔