! مسلم گھروں میں گھسنے کی کوشش

   

دستور بھی مفلوج ہے افراد بھی بیزار
سب کچھ نہیں ہے ٹھیک بغاوت کے ہیں آثار
! مسلم گھروں میں گھسنے کی کوشش
طلاق ثلاثہ بل کے ذریعہ بی جے پی زیر قیادت مرکزی حکومت آیا مسلمانوں کے گھرانوں میں داخل ہونے کی کوشش کررہی ہے۔ مسلمانوں کی شریعت سے چھیڑ چھاڑ اور مطلقہ خواتین کو تحفظ دینے کے نام پر مسلم مرد حضرات کو ذہنی طور پر اذیت دینے کی پالیسی پر گامزن ہے؟۔ یہ سوالات ان دنوں مسلم معاشرہ میں شدت سے اُٹھائے جارہے ہیں۔ بی جے پی حکومت نے لوک سبھا میں اپنی اکثریت اور اپوزیشن کے واک آؤٹ کی وجہ سے بل کو منظور کروایا مگر راجیہ سبھا میں حکومت کو اکثریت حاصل نہیں ہے جہاں اپوزیشن نے بل کی مخالفت کرتے ہوئے اسے سلیکٹ کمیٹی سے رجوع کرنے پر زور دیا ہے۔ آنے والے لوک سبھا انتخابات کیلئے بی جے پی کے پاس کوئی ترقیاتی موضوع اور اپنی حکمرانی کا کوئی دستاویزی ثبوت اور کارڈ نہیں ہے جس کی مدد سے وہ عوام کے سامنے حاضر ہوکر ووٹ کی اپیل کرسکے۔ اس لئے وہ اپنے ووٹ بینک کو بچانے کی خاطر مسلمانوں کے گھروں میں گھسنے کی کوشش کررہی ہے۔ اس کی اس کوشش کو ناجائز اور جبراً کی جانے والی حرکت قرار دیتے ہوئے مسلمانوں کو اُٹھ کھڑے ہونے کی ضرورت ہے۔ جموں وکشمیر کی سابق چیف منسٹر اور پی ڈی پی کی سربراہ محبوبہ مفتی نے طلاق ثلاثہ بل کی شدید مخالفت کرتے ہوئے اسے مسلم پرسنل لا پر حملہ کی کوشش قرار دیا۔ انہوں نے بی جے پی حکومت پر الزام عائد کیا کہ وہ طلاق ثلاثہ کے بہانے مسلمانوں کے گھروں میں نقب زنی کررہی ہے۔ انہوں نے حکومت کو خبردار کیا کہ وہ گاندھی کے اس سیکولر ملک کو ضیاء الحق کا پاکستان بنانے کی کوشش نہ کرے۔ محبوبہ مفتی نے ایک مسلم خاتون کی ذاتی زندگی کے بارے میں حکومت کی غیر ضروری پریشانی کا سوال اٹھایا ہے۔ ایک مسلم خاتون کی حیثیت سے وہ بل کی مخالفت کررہی ہیں اگرچیکہ ان کی زندگی میں شادی کا معاملہ بھی ٹوٹ چکا ہے، اس کے باوجود وہ مسلمانوں کے خاندانی ڈھانچہ اور اصولوں پر حکومت کے حملہ کو ناقابل برداشت قرار دیتی ہیں۔ مسلمانوں کو اپنے پرسنل لا پر فخر ہے، وہ مسلم خاندانی ڈھانچہ میں ہی خود کو محفوظ تصور کرتے ہیں۔ مسلم خواتین بھی اپنی شریعت کے اصولوں کو اختیار کرنے اور اس پر عمل کرنے کو ترجیح دیتی ہیں۔ ایسے میں بی جے پی جیسی جماعتوں کو مسلمانوں اور مسلم خواتین کے نام پر مسئلہ کھڑا کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اسلام میں شادی کے پاکیزہ اصولوں پر چلنے والوں کے لئے کئی فوائد ہیں اور طلاق پر عمل کرنے والوں کے لئے سخت وعید پائی جاتی ہیں۔ حتمی حالات میں ہی طلاق دی جاتی ہے اور یہ ایک تلخ عمل ہے جس پربحالت مجبوری مسلم خاندانوں میں عمل کیا جاتا رہا ہے۔ اگر اب بی جے پی اپنے سیاسی ایجنڈہ کی آڑ میں مسلمانوں کو پریشان کرنے اور مسلم خواتین کو نازک صورتحال سے دوچار کرنے کی کوشش کررہی ہے تو یہ ہرگز برداشت نہیں کیا جائے گا۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی خاتون شعبہکے ارکان نے طلاق ثلاثہ بل کی مخالفت کرتے ہوئے بہت جلد ملک گیر احتجاج شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اگر اس بل کو قانونی شکل دے دی گئی تو اسے مذہب پر راست حملہ قرار دیا جائے گا۔ مرکزی حکومت کے اس مسلم ویمن (پروٹیکشن ) آف رائیٹس آن میریج ) بل 2018 میں جو کوئی مسلم مرد اپنی بیوی کو 3 طلاق دیتا ہے وہ تعزیری طور پر جرم کا مرتکب کہلاتا ہے۔ اسے 3 سال کی سزا ہوسکتی ہے، یہ بل اس ملک کے 30 کروڑ مسلمانوں کو سخت پیام دے رہا ہے۔ اگر مسلمانوں نے اس کی شدت سے مخالفت نہییں کی تو اس طرح کی حکومتیں آئندہ بھی مسلمانوں کے شرعی معاملوں میں مداخلت کرنے کے بہانے تلاش کرکے انہیں ان کے دین سے دور کرنے کی سازش کریں گی اور نت نئے من مانی قوانین لانے کی راہ ہموار کرتی جائیں گی۔ لہذا ہندوستانی مسلمانوں کو اس حکومت کے ناپاک منصوبوں کو ناکام بنانے کیلئے پوری شدت سے اُٹھ کھڑے ہونے کی ضرورت ہے۔ اپنے نام نہاد مسلم قائدین کو بھی بیدار کرتے ہوئے ان کے حقوق اور آئین کی جانب توجہ دلاکر انہیں بھی حکومتوں کے خلاف میدان عمل میں لانے کی کوشش کریں۔ بہر حال ہندوستانی مسلم صرف ووٹ دینے کے لئے نہیں ہیں بلکہ اپنے حقوق اور اپنے مذہب پر کسی بھی قسم کی آنے والی آنچ کو روکنے کی بھی طاقت رکھتے ہیں اس کا ثبوت دینے کی ضرورت ہے۔