معجزۂ معراج تاریخ ارتقائے نسلِ انسانی کا اہم سنگ میل

   

ابوزہیرسیدزبیرھاشمی نظامی
آج شبِ معراجِ مصطفی ﷺہے، معراج کی شب کو دین اسلام میں ایک نمایاں اور منفرد مقام حاصل ہے۔ جب اﷲ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اﷲعلیہ وآلہٖ وسلم کو اپنے پاس بلاکر اپنا دیدار کرایا۔
رجب المرجب، اسلامی سال کا ساتواں مہینہ ہے۔ اﷲرب العزت نے سال کے بارہ مہینوں میں مختلف دنوں اورراتوں کی خاص اہمیت و فضیلت بیان کرکے ان کے خاص خاص برکات و خصوصیت بیان فرمائی ہے۔
معجزۂ معراج النبی صلی اﷲعلیہ وسلم ، تاریخ ارتقائے نسل انسانی کا وہ اہم سنگ میل ہے، جسے قصرایمان کا بنیادی پتھر بنائے بغیر تاریخ بندگی مکمل نہیں ہوتی اور روح کی تشنگی کا مداوا نہیں ہوتا۔ اﷲتعالیٰ نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کو مکان و لامکاں کی وسعتوں سے نکال کر اپنے قرب کی حقیقت عطا فرمائی، جس کا گمان بھی عقل انسانی میں نہیں آسکتا۔
واقعۂ معراج النبی ﷺ، ہجرتِ مدینۂ منورہ سے قبل پیش آیا۔ خالقِ کائنات اﷲ سبحانہٗ و تعالیٰ کے حکم سے حضرت جبرئیل علیہ السلام فرشتوں کی جھرمٹ میں سواری (براق) لے کر نبی آخرالزماں ﷺ کی خدمتِ بابرکت میں حاضر ہوئے، پھر سوئے عرشِ سفر شروع ہوا۔
سفرمعراج، حضور اکرم ﷺ کی حیات طیبہ کا ناقابل فراموش اور اہم ترین واقعہ ہے، جس میں آپ ﷺپر تمام عالمین کے اسرار و رموز اور حقائق کو منکشف کیا گیا۔
معجزہ :جب کسی نبی اور رسول کو نبوت و رسالت کی خلعت سے سرفراز کیا جاتا تو کفار و مشرکین ، دعویٔ نبوت کی صداقت کے طور پر اس کے متعلق دلیل طلب کرتے۔ اس پر قدرتِ خداوندی سے جو خارقِ عادت واقعہ اُس نبی یا رسول کے دست حق پرست سے صادر ہوتا ہو اُسے معجزہ کہا جاتا ہے۔
’’معراج‘‘ لغت عرب میں ایک وسیلہ کو کہتے ہیں، جس کی مدد سے بلندی کی طرف سے چڑھا جائے، اسی لحاظ سے سیڑھی کو بھی ’’معراج‘‘کہاجاتاہے۔(ابن منظور، لسان العرب)
قرآن مجید کے پارۂ پندرہ، سورۂ بنی اسرائیل کی پہلی آیت کی تفاسیر اور روایات کے مطابق حضوراکرم ﷺکا سفرمعراج، مکہ مکرمہ سے بیت المقدس اور وہاں سے آسمان و مکان سے لامکاں کی طرف ہوا۔ اور پھر واپس آنے کے جسمانی سفر کو معراج کہا جاتا ہے: ’’پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے بندہ (محمد ﷺ) کو رات کے کچھ حصہ میں مسجدحرام سے مسجد اقصی تک کی سیر کرایا۔ جس کے ارد گرد ہم نے برکتوں کو رکھا تاکہ انہیں ہماری نشانیاں دکھلائیں۔ یقینا وہ (اللہ تعالیٰ) سنے والا، دیکھنے والا ہے‘‘۔ (سورۂ بنی اسرائیل)
معراج النبی صلی اﷲعلیہ وسلم کمالِ معجزاتِ مصطفی ﷺ ہے۔ یہ وہ عظیم خارقِ عادت واقعہ ہے کہ جس نے تسخیر کائنات کے مقفل دروازوں کو کھولنے کی ابتداء کی۔ انسان آگے چل کر تحقیق و جستجو کے بند کواڑوں پر دستک دی اور خلا میں پیچیدہ راستوں کی تلاش کا سرِ فریضہ انجام دیا۔ رات کے مختصر سے وقفے میں جب اﷲتعالیٰ حضور اکرم ﷺ کو مسجدحرام سے مسجداقصی تک، بلکہ جملہ سماوی کائنات کی بے انتہاء وسعتوں کے اُس پار ( قَابَ قَوْسَيْنِ اور أَوْ أَدْنَىٰ) کے بلند مقامات تک لے گیا اور وہاں سے اُسی قلیل مدت میں دوبارہ اِس زمین پر جلوہ افروز بھی ہوگئے۔
خالقِ کائنات اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ جتنے حضراتِ انبیاء علیہم السلام کو مبعوث فرمایا، انہیں اپنے دعویٔ نبوت کی صداقت و حقانیت کیلئے ظاہری و باطنی معجزات سے بھی نوازا ہے۔
انبیائے عظام علیہم السلام کے کردار، عادات، اطوار، اخلاق اور ان کی شخصیات ہی معجزاتی جمال کا مظہر ہوتی ہیں۔ حضوراکرم صلی اﷲعلیہ وسلم کی سیرت و کردار کو تمام انسانیت کیلئے بالعموم اور اہل ایمان کیلئے بالخصوص اُسوۂ حسنہ سے تعبیر کرتا ہے اور قیامت تک اِس مینارۂ نور سے اکتسابِ شعور کی تلقین کرتا ہے۔ ارشادِ باریٔ تعالیٰ ہے : ’’بے شک تمہارے لئے رسول اﷲ (ﷺ کی زندگی ) میں بہترین نمونہ ہے‘‘۔
(سورۃ الاحزاب، آیۃ۳۳)
اخلاق و کردار کی روشنی کے ساتھ ساتھ تمام حضراتِ انبیاء عظام علیہم السلام کو ظاہری معجزات کی خِلعتِ فاخرہ سے بھی نوازا گیا اور معجزہ لازمۂ نبوت قرار پایا۔
ا ﷲرب العزت نے اپنی آخری و الہامی تاقیامِ قیامت رہنے والی عظیم کتاب، قرآنِ مجید میں مذکورہ انبیاء عظام علیہم السلام کے معجزات کا ذکر فرمایا، جن کا اُس کے انبیا ء ورسل عظام کے ہاتھ پر ظہور ہوا۔
حضوراکرم ﷺنے ارشاد فرمایا: ’’جملہ حضراتِ انبیاء عظام علیہم السلام میں سے ہر نبی کو اُس کے مثل معجزات عطا کئے، جن کے سبب اُن پر ایمان لایا گیا، لوگ اُن پر ایمان لائے۔ (صحیح بخاری، کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، صحیح مسلم ، کتاب الایمان)
معجزہ ایک ازلی صداقت کا نام ہے۔ اب اِس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ فلسفہ و سائنس معجزے کی حقیقت کو شعور میں لانے کیلئے ممد و معاون ثابت ہوسکتی ہے اور ایمان کی پختگی کا باعث بھی، لیکن انہیں معجزات کی تفہیم کی اساس یا کلید قرار نہیں دیا جاسکتا، وہ اس لئے کہ معجزات جو خالقِ کائنات کی قدرتِ مطلقہ کا مظہر ہوتے ہیں، کسی فلسفہ اور سائنس کی توجیہہ کے محتاج نہیں ہوتے۔ معجزہ ایک ازلی صداقت کا نام ہے۔
اِس عظیم واقعۂ سفرمعراج النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق تین مراحل بتلائے گئے ہیں: ۱۔ اسراء کا سفر: مسجدحرام سے مسجداقصی تک کے سفر کو سفرِ اسراء کہا جاتا ہے۔
۲۔ معراج کا سفر : بیت المقدس سے مرحلہ وار ساتوں آسمانوں اور سدرۃ المنتہی تک کے سفر کو سفرِ معراج کہا جاتا ہے۔
۳۔ اعراج کا سفر : سدرۃ المنتہی سے مقامِ قاب قوسین تک کے سفر کو سفرِ اعراج کہا جاتا ہے۔ (فوائدالفوائد)
سفرِ معراج کے متعلق مذکورہ تین مراحل کے متعلق ایک جلیل القدر بزرگ حضرت نظام الدین دہلوی رحمۃ اﷲعلیہ نے حضوراکرم صلی اﷲعلیہ وسلم کے اس مقدس سفر اور مرحلہ وار کے باب میں اپنی کتاب بنام’’فوائدالفوائد‘‘ میں تین اصطلاحات تحریر فرمائے ہیں۔
حضرت جبرئیل علیہ السلام کی تمنا !
حضور اکرم صلی اﷲعلیہ وسلم حضرت جبرئیل علیہ السلام سے پوچھے: ھل من حاجت ربک۔ ’’کیاتمہارے دل میں کوئی حاجت اور آرزو ہے، جسے میں آپ کے رب تک پہنچادوں‘‘۔ (السیرۃ الحلبیہ)۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے عرض کیا کہ میرے دل میں صرف ایک ہی آرزو ہے، جو آپ میرے پروردگار تک پہنچادیں۔ وہ یہ کہ کل قیامت کے روز جب آپ کی گنہگار امت پل صراط سے گزرنے لگے اور گزرتے وقت اِس امت کے قدم لڑکھڑانے لگیں تو اﷲتعالیٰ مجھے اس بات کی اجازت دیں کہ میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی امت کیلئے پل صراط پر اپنے پَر بچھادوں تاکہ وہ سلامتی سے گزرسکے۔ حضوراکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میں آپ کی یہ خواہش پرور دگار تک پہنچادوں گا اور وہ اسے ضرور پورا فرمائے گا۔
اﷲتعالیٰ ہم سب کو نیک توفیق عطا فرمائے۔ آمین
zubairhashmi7@gmail.com