مغربی کنارہ فلسطینیوں کی ایک اوپن ایئر جیل میں تبدیل

   

سیاست فیچر
غزہ پر زائداز دس سال قبل قبضہ کرنے کے بعد اسے اگر آج دنیا کی سب سے بڑی اوپن ایئر جیل کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا لیکن آپ کو یہ جان کر تعجب ہوگا کہ فلسطین میں اس نوعیت کی ایک اور جیل موجود ہے جس پر الگ نوعیت کا قبضہ ہے اور وہ ہے مغربی کنارہ۔ ہر وہ فلسطینی جو وہاں رہتا ہے اور جس کے پاس اپنی رہائشی ثبوت کے پورے پورے دستاویزات موجود ہیں، وہ بھی وہاں یعنی اپنے ہی گھر میں ایک قیدی کی طرح زندگی گذارنے پر مجبور ہے۔ فلسطینیوں کو اپنی نقل و حرکت پر پابندی کا سامنا ہے۔ بہ الفاظ دیگر یہ کہا جائے کہ یہاں نقل و حرکت کی آزادی کا وجود ہی نہیں ہے، تو بہتر ہوگا کیونکہ اسرائیل نے فلسطینیوںکے حقوق کو سلب کررکھا ہے اور جو حقوق انہیں تفویض بھی کئے گئے ہیں تو ان کی تعداد محدود ہے۔ یہ تمام اسرائیلی پالیسی کا حصہ ہے لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اسرائیل کی اس پالیسی کو دنیا کے دیگر ممالک کی کوئی توجہ حاصل نہیں ہے۔ خصوصی طور پر اسرائیل کے پڑوسی ممالک نے تو اسرائیلی پالیسیوں پر اپنی آنکھیں بند کرلی ہیں۔ اسرائیل نے مغربی کنارہ میں سینکڑوں گیٹس، چیک پوائنٹس، دیگر رکاوٹیں، ایسی سڑکیں جن کا استعمال فلسطینیوں کے لئے ممنوع ہے جبکہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ایک 700 کیلو میٹر کی علیحدہ دیوار بھی تعمیر کی گئی ہے تاکہ فلسطینیوں کی نقل و حرکت پر نظر رکھی جاسکے۔ مغربی کنارہ کے دیگر مواضعات میں بھی مختلف نوعیت کی رکاوٹیں کھڑی کی گئی ہیں۔ اسرائیلی فوجی بیت فورک چیک پوائنٹ جو نیلس کے قریب واقع ہے، اکثر و بیشتر فلسطینیوں کی کاروں کی جانچ پڑتال کرتے ہیں علاوہ ازیں فلسطینیوں کو بعض اراضیات میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے (چاہے وہ فلسطینیوں کی ہی مملکت کیوں نہ ہو) جن میں سب سے اہم نام نہاد ایٹر ، سی (C) ہے۔ یہ ایک ایسا مقام ہے جس کی نشاندہی اوسلو معاہدہ میں کی گئی ہے جہاں اسرائیلیوں کی بیشتر غیر قانونی آبادیاں ہیں جس نے مغربی کنارہ کے 61 فیصد حصہ کا احاطہ کررکھا ہے۔ دوسری طرف مغربی کنارہ چھوڑنے والے فلسطینیوں کو اسرائیل سے ایک پرمٹ حاصل کرنا پڑتا ہے۔ ان پرمٹس کو صرف ان فلسطینیوں کے لئے جاری کیا جاتا ہے جو سماج کے اہم شخصیات ہیں (جیسے تاجرین اور سیاستداں) ایسے لوگ ہیں جو غریب فلسطینیوں کو روزگار فراہم کرتے ہیں خصوصی طور پر تعمیراتی شعبہ میں۔ مابقی عام فلسطینیوںکو صرف اسی صورت میں پرمٹ جاری کیا جاسکتا ہے جب انہیں طبی بنیادوں پر باہر جانا پڑتا ہے۔ فلسطینی شہری زیادہ تر زراعت کے ذریعہ گذر بسر کرتے ہیں جبکہ انہیں زراعت کے لئے خود اپنی ہی اراضی کے حصول کے لئے جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔ 2017 میں تقریباً سات لاکھ فلسطینیوں نے پرمٹ کے لئے درخواست دی تھی جن میں سے 5 لاکھ 60 ہزار فلسطینیوں کو پرمٹ جاری کئے گئے تھے اور باقی لوگوں کی درخواستیں مسترد کردی گئی ہیں۔ یہ بھی ایک المیہ ہے کہ ہزاروں فلسطینی شہری صبح کی اولین ساعتوں سے حبرون کے قریب تارا قومیا میں واقع اسرائیلی چیک پوائنٹس پر موجود رہتے ہیں جہاں سے وہ اپنے اپنے کام کے علاقوں کی جانب روانہ ہو جاتے ہیں جسے گرین لائن کہتے ہیں۔ اسرائیلی شہریوں کو اس گرین لائن علاقہ میں بغیر کسی پرمٹ کے نقل و حمل کی اجازت ہے جبکہ فلسطینیوں کو اسرائیلی فوج کی جانب سے جاری کئے گئے پرمٹ حاصل کرنا پڑتے ہیں۔ ان تمام تحدیدات سے فلسطینیوں کی معاشی حالت شدید طور پر متاثر ہوئی ہے۔ 2007 میں تمام چیک پوائنٹس کے مجموعی منفی اثرات کا تخمینہ مغربی کنارہ کے جی ڈی پی کے 6 فیصد نقصان سے لگایا گیا ہے یعنی 229 ملین ڈالرس کا نقصان یہ بات تو ہوئی معاشی نقصانات کی۔ تاہم انسانی حالت کیا ہے اس کا بھی اندازہ ہو جائے گا۔ مغربی کنارہ میں ایسے لوگ بھی مل جائیں گے جو کبھی یروشلم میں داخل نہیں ہوئے حالانکہ وہ وہاں سے صرف ایک گھنٹے کی مسافت کے فاصلہ پر رہتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہندوستان کے شہر ممبئی میں رہنے والا کوئی شخص کلیان نہ گیا ہو یا حیدرآباد کا رہنے والا کوئی شہری محبوب نگر نہ گیا ہو۔ آپ کو ایسے فلسطینی شہری بھی مل جائیں گے جن کے پاس امریکی یا یوروپی پاسپورٹ ہوتے ہیں اور جنہیں بغیر ویزے کے دنیا کے بیشتر ممالک کا دورہ کرنے کی اجازت بھی حاصل ہے تاہم ان کے لئے بھی خود اپنے ہی ملک میں صرف 20 کیلو میٹر کے فاصلہ پر واقع جافا کا دورہ کرنے کے لئے درکار پرمٹ حاصل کرنا ایک دشوارکن مرحلہ ثابت ہوتا ہے۔ میرے تین فلسطینی دوست ہیں (جن کے پاس فرانسیسی، امریکی اور روسی پاسپورٹ ہیں) تاہم حیرت کی بات یہ ہے کہ یروشلم میں واقع میرے مکان میں کبھی بھی میں ان کی میزبانی نہیں کرسکا۔ دستاویزی طور پر تینوں فلسطینیوں کو اسرائیل میں داخلہ کے لئے ویزہ کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور ساتھ ہی ساتھ فلسطینی سرحدوں میں بھی داخلہ کی اجازت ہے جیسا کہ ہر سال ہزاروں امریکی، فرانسیسی اور روسی شہری کرتے ہیں (یعنی ہر سال وہاں کا دورہ کرتے ہیں) تاہم اسرائیلی حکام یہ جانتے ہیں کہ ان کے پاس فلسطینی شناختی کارڈ ہیں لہذا وہ انہیں داخلہ سے روک دیتے ہیں۔ اس طرح اب نہ تو وہ اتنے امیر ہوئے ہیں اور نہ ہی سیاسی اثر و رسوخ کے حامل ہوئے ہیں۔ لہذا انہیں پرمٹ جاری نہیں کیا جاتا اور وہ اپنے ہی ملک کے بعض حصوں کا دورہ کرنے سے محروم رہ جاتے ہیں۔ مغربی کنارہ نہ چھوڑنے کے علاوہ اس کے اندرون علاقہ میں سفر کرنا بھی ان لوگوں کے لئے بعض وقت ایک ڈراؤنا خواب ثابت ہوتا ہے۔ چیک پوائنٹس کو وقتاً فوقتاً کھولا اور بند کیا جاتا ہے جس کے ذریعہ فلسطینیوںکی نقل و حرکت پر کڑی نظر رکھی جاتی ہے۔ اس چیک پوائنٹس کے ذریعہ اسرائیلی شہریوں کو آمد و رفت کی ہر سہولت فراہم کی جاتی ہے اور فلسطینیوں کا عرصۂ حیات تنگ کردیا جاتا ہے۔ چیک پوائنٹس کے مسلسل کھولنے اور بند کرنے کے عمل سے تقریباً 10 مواضعات میں رہنے والوں کو اپنے اپنے مقامات تک پہنچنے کے لئے دوگنا اور تین گنا فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے جو ان کی مشکلات میں اضافہ کا باعث بن جاتا ہے۔ اسی طرح اگر ہم یہ سوچیں کہ چیک پوائنٹس کے بار بار کھولنے اور بند کرنے سے فلسطینیوں کا کیا نقصان ہوتا ہے تو ہر کوئی ہماری طرح ہی سوچنے پر مجبور ہو جائے گا۔ کبھی کسی شادی میں، کبھی کسی میت میں شرکت کرنے سے محروم ہو جاتے ہیں۔ کسی ہاسپٹل جانے والے مریض کا چیک پوائنٹ بند ہونے سے راستے میں ہی انتقال ہو جاتا ہے کیونکہ اسے بروقت ہاسپٹل نہیں پہنچایا جاسکتا۔ کوئی کسی ملازمت کے لئے انٹرویو میں شرکت کرنا چاہتا ہے لیکن وہ تاخیر کا شکار ہو کر ملازمت کھوبیٹھتا ہے۔

16 برسوں بعد مسجد اقصیٰ سے قریب نمازجمعہ ادا کی
گزشتہ 16 برسوں کے دوران پہلی بار فلسطینی شہریوں سے الرحماگیٹ کے قریب مختص کردہ ایک علاقہ میں نماز جمعہ ادا کی جو دراصل مقبوضہ مشرقی یروشلم کی مسجد اقصیٰ کے کامپلکس کے اندرونی حصہ میں واقع ہے۔ یہ مختلف گیٹس کی ایک راہداری ہے اور سیڑھیوں کے ذریعہ ایک راستہ ہال کی جانب جاتا ہے جسے اسرائیلی حکام نے کئی برسوں سے بند کررکھا تھا تاہم مسلم علماء نے اسے جمعہ کے روز دوبارہ کھلوایا۔ مذکورہ ہال مسجد اقصیٰ سے کچھ ہی فاصلہ پر واقع ہے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہے کہ اسرائیلی حکام نے اس علاقہ کو 2003 میں بند کردیا تھا جبکہ 2017 میں ایک اسرائیلی عدالت نے بھی بند رکھے جانے کے حکم کو برقرار رکھا تاہم جمعہ کے روز اردن کی جانب سے چلائی جانے والی ایجنسی جیسے ریلیجیئس انڈومنٹس اتھاریٹی کہا جاتا ہے، نے مشرقی یروشلم میں مسلمانوں کی قابل لحاظ آبادی اور عیسائیوں کے لئے بھی یکساں طور پر مقدس مقام کے موقف کو مدنظر رکھتے ہوئے جمعہ کے روز اسے دوبارہ کھولنے کا اعلان کیا۔ اس موقع پر انڈومنٹس کے ڈائرکٹر شیخ عبدالعظیم نے بہ نفس نفیس ہال کا دروازہ کھولا اور وہاں نماز جمعہ ادا کی گئی۔ یاد رہے کہ پیر کے روز اسرائیلی حکام نے الرحماگیٹ کو بند کردیا تھا جس کی وجہ سے سینکڑوں فلسطینی مسجد اقصیٰ کامپلکس میں داخل نہ ہوسکے۔ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے بعد مسجد اقصیٰ مسلمانوں کا تیسرا سب سے بڑا مقدس مقام ہے۔ اس موقع پر اسرائیلی پولیس کی تعداد میں زبردست اضافہ کردیا گیا کیونکہ نماز جمعہ کی ادائیگی کے لئے ہزاروں مسلمان وہاں پہنچے تھے اور ذراسی غلطی کی وجہ سے لاء اینڈ آرڈر خطرے میں پڑسکتا تھا۔ یہودی اس مقام کو ٹمپل ماؤنٹ کہتے ہیں لہذا اسرائیلی پولیس نے یروشلم کے قدیم شہر فصیل میں سیکوریٹی میں اضافہ کردیا تاکہ کوئی ناخوشگوار واقعہ رونما نہ ہو۔ قدیم شہر کے مقامات میں دراصل وہ علاقے ہیں جن پر اسرائیل نے 1967 میں اردن کے ساتھ ہوئی جنگ میں قبضہ کرلیا تھا۔ دریں اثناء غزہ کے عہدیداروں کے ایک بیان کے مطابق غزہ۔ اسرائیل سرحدی فصیل کے قریب احتجاج کے موقع پر ہوئی فائرنگ میں ایک فلسطینی کمسن نوجوان شہید ہوگیا جس کی 15 سالہ یوسف الدیا کی حیثیت سے شناخت عمل میں آئی ہے جبکہ 30 دیگر افراد کے زخمی ہونے کی بھی اطلاع ہے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ایک بار پھر ضروری ہے کہ فلسطینی شہری گزشتہ سال مارچ سے ہر جمعہ کے روز اسرائیلی سرحد کے قریب غیر مسلم احتجاج منظم کرتے ہیں جسے ’’گریٹ مارچ آف ریٹرن‘‘ سے موسوم کیا گیا ہے جہاں وہ اسرائیل سے بندرگاہی پٹی پر گزشتہ 12 سال سے عائد کی گئی پابندی ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں جبکہ اسرائیل کا یہ استدلال ہے کہ وہ اپنی سرحدوں کی حفاظت کرتا ہے اور غزہ پر حکمراں حماس کو احتجاج منظم کرنے مورد الزام ٹھہراتا ہے۔ گزشتہ سال مارچ سے شروع ہوئے احتجاج میں اب تک 248 فلسطینی شہید ہوچکے ہیں جن میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جنہیں احتجاجی مظاہروں کے دوران گولی مارکر شہید کیا گیا جبکہ زخمی ہونے والوں کی تعداد 23000 بتائی گئی ہے اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس دوران صرف دو اسرائیلی فوجی ہی ہلاک ہوئے۔