ملعون رشدی پر حملہ کرنے والے کی ائی آرجی سی‘انتہا پسندو ں سے مبینہ ہمدردی۔ رپورٹس

,

   

متار نے اس وقت رشدی پر13اگست کے روز نیویارک کے ایک تعلیمی او روحانی مرکز میں حملہ کیا جو وہ امریکہ میں تخلیقی آزادی پر تبادلہ خیال میں حصہ لینے کی تیاری کررہا تھا۔


نیویارک۔ ملعون مصنف سلمان رشدی پر مبینہ حملہ کرنے والے ہادی متار کی ایرانی فوجی تنظیم اور سیتھ شدت پسندوں سے ہمدردی تھی‘ قانون نافذ کرنے والے ذرائع کے حوالے سے میڈیا کی رپورٹس میں یہ بات کہی گئی ہے۔

این بی سی کے ایک قانون نافذ کرنے والے ذرائع کے حوالے سے کہاہے کہ ”ابتدائی جانچ سے یہ بات سامنے ائی ہے کہ متار کے سوشیل میڈیا اکاونٹس سے ظاہر ہے کہ وہ ”شیعہ شدت پسندوں اوراسلامی انقلابی گارڈس کارپس(ائی آر جی سی) کے اسباب سے ہمدردی رکھتاہے“۔

متار نے اس وقت رشدی پر13اگست کے روز نیویارک کے ایک تعلیمی او روحانی مرکز میں حملہ کیا جو وہ امریکہ میں تخلیقی آزادی پر تبادلہ خیال میں حصہ لینے کی تیاری کررہا تھا۔پینسیلونیا کے ایریا کے ایک اسپتال کے چوتاکیو مرکز میں ہیلی کاپٹر کے ذریعہ رشدی کو لے جایاگیا جہاں پر اس کو عارضی تنفسی نظام پر رکھ کر گردن‘ جگر‘ ہاتھ او رآنکھ پر آنے والے زخموں کی سرجری کی گئی ہے۔

ڈیلی میل نے اتوار کے روز خبر دی کہ مذکورہ ہندوستانی نژاد مصنف کے بیٹے ظفر نے کہا ہے کہ وہ تیزی کے ساتھ روبہ صحت ہورہے ہیں اور بات بھی کررہے ہیں۔اس حملے کی ایک وجہہ آر جی جی سی کے میجر جنرل قاسم سلیمانی کی امریکی فضائی حملہ میں ہلاکت بھی ہوسکتی ہے۔

اے بی سی نیوز کی خبریں ہیں کہ سلیمانی اور ابو مہدی المہندس جو عراق کا موافق ایرانی اتحاد تحریک کے لیڈر ہیں جو ایک ڈرون حملے میں 2020میں مارے گئے تھے‘ ان کی تصویریں متار کے فون سے دستیاب ہوئی ہیں۔

ایرانی فوج کی ایک شاخ ائی آر جی سی ہے جو گھریلواو رعالمی بشمول عراق او رسیریا میں کاروائیوں انجام دیتی ہے۔ اے بی سی کی نیوز کے مطابق متار کی موافق ایرانی شیعہ دہشت گرد گروپ سے گہری ہمدردی کی طرف اشارہ کررہا ہے‘ پولیس کونیوجرسی فرضی ڈرائیور لائنس دستیاب ہوا ہے جس پر ”حسن مغنیا“ کانام درج ہے مگر متاثر کی تصویر ہے۔

ایران کے روحانی لیڈر مرحوم آیت اللہ خمینی نے رشدی کے خلاف1989میں اس کی کتاب’شیطانی“ آیت کے وجہہ سے قتل کا فتوی دیاتھا جس کو توہین تصویر کیاجاتا ہے‘ اور ایرانی گروپس نے اس کے سر پر3ملین امریکی ڈالر کا انعام رکھاتھا۔

اگر چکہ کے رشدی پر حملے کا کوئی سرکاری ردعمل سامنے نہیں آیاہے لیکن جوہری معاہدے کے لئے ایرانی مذاکرات کے مشیرسید محمدمراندی نے ٹوئٹ کیاکہ”میں ایک ایسے مصنف کے لئے آنسو نہیں بہاؤں گاجو مسلمانوں اوراسلام سے لامتناہی نفرت او ر حقارت کا اظہار کرتا ہے۔

وہ ناول نگار جو حکومت میں ایک پیدہ کی اہمیت رکھتاہے“۔ مگر اپنی حکومت کو متار سے لاتعلق رکھنے کی کوشش کرتے ہوئے انہوں نے یہ بھی کہاکہ یہ”عجیب“ ہے کہ ایسا ہوتا ہے کیونکہ امریکہ‘ اقوام متحدہ کے سلامتی کونسل کے دیگر مستقل اراکین جرمنی‘ یوروپی یونین معاہدے کو بحال کرنے کے لئے ممکنہ معاہدے کے قریب تھے کہ سابق امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے ایران پر عائد پابندیاں ہٹانے کے بدلے اس کے جوہری پروگرام کو محددو کرنے فیصلہ کیاتھا۔

ڈیلی میل سے اپنی بات چیت میں متار کی والدہ سیلونا فردوس نے اشارہ دیاکہ بہت ممکن ہے مشرقی وسطی کیلئے اس کے دورے کے دوران شدت پسند ہوگیاہے۔

ڈیلی میل کا کہنا ہے کہ 2018میں لبنان کا دورہ کرنے کے بعد جہاں سے اس کے والدین نے ہجرت کی تھی‘ فردوس کو معلوم ہوا ہے کہ متار”اوربھی زیادہ مذہبی ہوگیاہے اور اس کی سختی کے ساتھ اسلامی پرورش نہیں کرنے پر تنقید کرنا شروع کیاہے“۔