ممتاز عالم دین مولانا مفتی مستان علی قادری کی ادبی خدمات

   

…ڈاکٹر عاصم ریشماں…
قومیںتعلیم سے بنتی ہیں جلاء پاتی ہیں اور اسی تعلیم کے ذریعہ عروج آدم خاکی سے افلاک سہمے جاتے ہیں کے مصداق ہوتی ہیں۔ عصر حاضر میں تعلیم کا پہلو تحقیق کے شعبہ کو فراموش کرنا گویا جسم لے کر روح سے دستبردار ہونے کے مترادف ہے۔ تعلیم اور تحقیق کے ساتھ تنظیم گویا سونے پر سہاگہ کا مقام رکھتی ہے۔ وطن عزیز میں ہر سال ہماری درس گاہوں سے لاکھ دیڑھ لاکھ طلبہ فارغ التحصیل کی سند حاصل کرتے ہیں لیکن مذکورہ صفات ان میں کم ہی پائی جاتی ہیں دکن کے کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہاں تعلیم وتحقیق اور تنظیم کی بے پناہ صلاحیتوں کے حامل اہل علم قوم کے شعور و فکر کی بیداری اور ملت کی صلاحیتوں کے حامل اہل علم قوم کے شعور و فکر کی بیداری اور ملت کی نسلوں کی خون دل سے آبیاری کا جذبہ بیکراں لے کر اٹھتے ہیں اور آفاق پر چھاجاتے ہیں۔ ممتاز عالم دین ، حافظ قرآن ، شارح حدیث، منبع سنت ،ماہر تعلیم سادگی اور توکل کا چلتا پھرتا پیکر مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد مستان علی قادری نظامی صادق کا شمار ایسے ہی افراد میں ہوتا ہے۔
اکثر لوگوں کو دیکھا گیا ہے کہ وہ کسی ایک فن میں ماہر ہوتے ہیں اور اسی فن میں اپنی قابلیت کا مظاہرہ کرتے ہیں مگر اللہ رب العزت نے آپ کو کئی علوم و فنون میں مہارت عطا فرمائی ہے، جہاں وہ ایک نامور مقرر ہیں وہیں ایک معروف اہل قلم بھی ہیں، جہاں آپ نے درس و تدریس میں گہرے نقو ش چھوڑے ہیں وہیں پر ایک کامیاب سوپروائیزری مقالہ نگار (Phd) اسکالرس کے نگران کار کی حیثیت سے بھی اپنے شب و روز گذار رہے ہیں اور کئی طالبات و طلباء نے پی ایچ ڈی مقالہ آپ کی نگرانی میں تکمیل کیا اور اہل خانہ کی کفالت کے لئے اور زندگی گذارنے کے ایڈیڈ اسکول یعنی اسلامیہ ہائی اسکول سکندرآباد میں بحیثیت اسکول اسسٹنٹ اردو کی حیثیت سے خدمت انجام دے رہے ہیں جو 1994 ء میں تقرر ہوا ہے ۔ آپ کے دینی و علمی کارناموں میں سب سے نمایاں اور سب سے اہم ترین ’جامعۃ المومنات ‘ کا قیام ہے جس کو آپ نے توکل کی اساس واخلاص پر چار طالبات کے ذریعہ 1991ء میں قائم کیا اور آپ کی شب و روز کی محنت اور جستجو سے اس جامعہ میں دو ہزار سے زائد طالبات علم دین کے زیور سے آراستہ ہورہے ہیں۔ آپ اسلامیہ ہائی اسکول سکندرآباد میں معلم کے فرائض انجام دینے کے بعد سارا وقت جامعہ کے لئے وقف کردیئے ہیں۔ جامعہ کی تعلیمی سرگرمیوں اور نظم و نسق اور دیگر معاملات میں تمام وقت صرف کرتے ہیں۔ مولانا کا انداز بہت ہی مشفقانہ اور ہمدردانہ ہے ۔ آپ چھوٹوں سے شفقت اور بڑوں سے ادب سے پیش آتے ہیں اور اپنے اساتذہ کا بڑا ادب و احترام کرتے ہیں۔ ہر چھوٹے سے آپ کی گفتگو کا انداز ویسا ہی ہوتا۔ جیسا کہ بڑوں سے، ہر ایک سے خوش اخلاقی سے پیش آتے ہیں اور بالکل سیدھا سادھا لباس زیب تن کرتے ہیں ۔یہی نہیں بلکہ آپ ہر معاملہ میں سنت رسولؐ کو پیش نظر رکھتے ہیں۔ آپ سلسلہ قادریہ میں مولانا سید شاہ بدر الدین قادری الجیلانی کے ہاتھ پر بیعت کئے اور آپ کو خلافت سے بھی سرفراز کیا گیا۔ مولانا کا عقد نکاح ایک دیندار، خوش الحان حافظ قرآن ، قاریہ، مداحت رسول اللہ ؐ، خوش مزاج ، عالمہ، فاضلہ، محقق ، بہترین مقررہ، مولوی عبدالغفور صاحب مرحوم کی صاحبزادی محترمہ ڈاکٹر مفتیہ حافظہ رضوانہ زرّین صاحبہ پرنسپل و شیخ الحدیث جامعۃ المومنات سے ہوا، اور ایک صاحبزادی وہ حافظ قرآن ، خوش الحان نعت خواں و قاریہ بھی ہیں۔ اس طرح آپ کے خاندان میں بہت سے حفاظ علماء اور اسکالرس ہیں۔ آپ نے اب تک دو مرتبہ حج بیت اللہ شریف اور زیارت روضہ اطہر حضرت سیدنا محمد مصطفی احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کیا اور کئی مرتبہ مختلف قومی سمیناروں میں اپنے مقالے پیش کئے جو بے حد پسند کئے گئے ۔ مولانا کی ادبی صلاحیتوں کو جِلاء دینے میں جامعہ نظامیہ کا بھی غیر معمولی حصہ رہا ہے۔ تقریباً دس کتابیں مختلف عناوین پر آپ نے تحریر کیں۔ اس کے علاوہ سالنامہ، روز نامہ و ہفتہ واری اُردو اخبارات ، جرائد وغیرہ میں اہم عنوانات پر آپ نے تحریر کیا اور پسند بھی کئے گئے۔ مولانا کو انشاء پردازی کا ذوق ، شعر و ادب سے لگاؤ، تصنیف و تالیف کا شوق ان کے اساتذہ کرام و شیوخ کی دین ہے۔ مولانا کے علمی ، ادبی کارناموں میں ان کی شاعری بھی اہمیت کی حامل ہے اور اپنا تخلص صادقؔ فرمایا کرتے ہیں۔ صرف نعت و منقبت کہتے ہیں ۔ مولانا کو عربی، اُردو پر ماہرانہ اور عالمانہ دسترس حاصل ہے۔ مولانا کا قلب عشق نبیؐ سے لبریز ہے۔
ہر قلب میں جلائیں چراغ عشق نبیؐ کا
اور چاک یوں ہی دامن ظلمات کریں گے
عشاق رسول ؐ کھولیں گے جب اپنے لبوں کو
سرکار مدینہ ؐ ہی کی وہ بات کریں گے
صادقؔ کی قضاء آئے درشاہ یدی پر
درگاہِ خدا میں یہ مناجات کریں گے