ممتا کی تیسری میعاد اور ذمہ داریاں

   

مغربی بنگال میں انتخابی عمل اپنے منطقی انجام کو پہونچا اور ترنمول کانگریس کی سربراہ ممتابنرجی نے مسلسل تیسری معیاد کیلئے بحیثیت چیف منسٹر حلف بھی لے لیا ۔ ممتابنرجی نے انتہائی شدت والی انتخابی مہم اور انتخابی لڑائی کے بعد یہ کامیابی حاصل کی ہے ۔ وہ بنگال میںمسلسل تیسری معیاد کیلئے اقتدار سنبھال چکی ہیں اور جس طرح انتخابی مہم ان کیلئے چیلنجس سے بھرپوررہی تھی اسی طرح حکومت کی ذمہ داری بھی چیلنجس سے بھرپور ہی رہے گی ۔ ممتابنرجی ویسے تو ایک اچھی سیاستدان کے ساتھ ایک اچھی اڈمنسٹریٹر بھی ہیںلیکن ان کیلئے آنے والے چیلنجس آسان نہیںہیں۔ ان کی بنگال میں کامیابی کے بعد انہیں قومی سطح پر نریندر مودی کی متبادل کے طور پر پیش کرنے کی کوششیں بھی شروع ہوگئی ہیں تاہم ممتابنرجی کو اس سے زیادہ بنگال پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ گذشتہ چند مہینوں میں بی جے پی اور اس کی نفرت والی سیاست نے بنگال میںعام زندگی کو اتھل پتھل کا شکار کردیا تھا ۔بنگالی عوام کو مشکلات کا سامنا تھا ۔ وہاں تشدد بھی ہوا ہے ۔ منتخبہ حکومت کی عدم موجودگی اور کورونا وباء کے دور میں بڑی بڑی انتخابی ریلیوں نے عوام کی پریشانیوں میںاضافہ کردیا ہے ۔ ایسے میں ممتابنرجی کو اب ساری توجہ فوری طور پر بنگال کے حالات کو بہتر بنانے پر مرکوز کرنے کی ضرورت ہے ۔ گذشتہ چند مہینوں میںا نہوں نے عوام کی سہولت کیلئے مختلف اقدامات کا اعلان کیا تھا ۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ان اقدامات کو عملی شکل دی جائے ۔ انہیںعوام کیلئے مفید اور سہولت بخش بنانے کیلئے اقدامات کئے جائیں۔ عوام کو ہر طرح سے راحت پہونچائی جائے ۔ تشدد پر قابو پانے کیلئے سخت موقف اختیار کیا جائے ۔ نفرت کی سیاست کو ختم کرنے اور اس سے مقابلہ کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ بنگالی کلچر کو فروغ دیتے ہوئے ترقیاتی عمل پر ساری کی ساری توجہ کی جائے ۔ عوام کو ترقی کے ثمرات میںحصہ دار بنایا جائے ۔ ان کی زندگیوں میںسہولیات لائی جائیں۔ روزگار کی فراہمی کیلئے اسکیمیں تیار کی جائیں اور بنگال کے نوجوانوںکو فرقہ واریت کے جنون سے بچانے کی کوشش کی جائے ۔

یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ بنگال میں ممتابنرجی کی اقتدار پر واپسی سارے بنگالی عوام کی تائید و حمایت کا نتیجہ ہے ۔ تاہم اس میںسب سے اہم رول مسلم رائے دہندوں کا ہے جنہوں نے کسی طرح کی تقسیم سے اپنے ووٹوںکو بچاتے ہوئے ممتابنرجی پر اٹوٹ بھروسہ کا اظہار کیا ہے ۔ اب ممتابنرجی کو ریاست کی اقلیتوں کو اس تائید کا جواب دینے کی ضرورت ہے ۔ اقلیتوں کی حالت کو بہتر بنانے کیلئے جامع منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے ۔ انہیںفنڈز فراہم کرنے کی ضرورت ہے ۔ ان کے ساتھ سماج کے ہر شعبہ میںہونے والی ناانصافیوں کو ختم کرنے کی ضرورت ہے ۔ روزگار کی فراہمی ہو یا پھر تعلیمی میدان میں انہیںمساوی مواقع فراہم کرنا ہو یا پھر سرکاری اسکیمات میںا ن کی حصہ داری ہو سبھی شعبوں میں موثر حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے مسلمانوں کی سیاسی ‘ سماجی اور معاشی و تعلیمی پسماندگی کو دور کرنے کیلئے اقدامات کئے جانے چاہئیں۔ فرقہ پرستی کی سیاست نے مسلمانوں کے خلاف نفرت کا جو ماحول جس حد تک بھی پیدا کیا تھا اس کو ختم کرنے کیلئے کوششیں ہونی چاہئیں۔ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو مزید مستحکم کیا جانا چاہئے ۔ فرقہ پرست طاقتیں آگے بھی بنگال کی سیاست پر اثرا نداز ہونے کی پوری کوشش کرینگی ۔ اس اندیشے کو ذہن میں رکھتے ہوئے مستقبل کے منصوبوں کو قطعیت دینے اور ان پر عمل آوری کو یقینی بنانا کی ضرورت ہے ۔

بحیثیت مجموعی بنگال کے حالات کو بدلنا بہت ضروری ہے ۔ وہاںسماجی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی پہلے ہی سے بہتر ہے اور اسے مزیدمستحکم کرتے ہوئے فرقہ پرست طاقتوں کے مستقبل کے عزائم کو بھی شکست دی جاسکتی ہے ۔ بنگال کے عوام نے انتہائی گھمسان کی انتخابی لڑائی میں ممتابنرجی پر جس اعتماد اور بھروسہ کا اظہار کیا ہے اور ان سے جن توقعات کو وابستہ کیا ہے ان کو پورا کرنا ممتابنرجی کا فریضہ ہے ۔ بنگال میںحالات کو بہتر بناتے ہوئے اور ترقی کا ایک موثر ماڈل پیش کرتے ہوئے سارے ملک کیلئے ایک مثال پیش کی جاسکتی ہے اور فرقہ پرست طاقتوں کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے ۔ سابقہ تجربات کو ذہن میں رکھتے ہوئے ممتابنرجی کو اپنی حکمت عملی تیار کرنے کی ضرورت ہے تاکہ انہیںپھرسے موقع پرست سیاستدانوں کی وجہ سے مشکلات کا سامنا کرنے کی نوبت درپیش نہ آنے پائے ۔