مودی کی انتخابی تقاریر

   

ملک میں انتخابی موسم انتہائی عروج پر پہونچ چکا ہے اور اب یہ اپنے اختتامی مراحل میں داخل ہوچکا ہے ۔ جس وقت یہ سطور پڑھی جا رہی ہونگی اس وقت تک پانچویں مرحلے کی رائے دہی کا آغاز ہوچکا ہوگا اور پھر صرف دو مراحل کی رائے دہی باقی رہ جائیگی ۔ انتخابی مہم کے دوران تقریبا تمام سیاست دانوں اور امیدواروں نے انتہائی شدت کے ساتھ اپنی مہم چلائی ہے اور ایک دوسرے کو نشانہ بنانے سے گریز نہیں کیا ہے ۔ تاہم ایسا لگتا ہے کہ وزیر اعظم نریندرمودی ہرگذرتے مرحلے کے ساتھ اپنے اوسان کھوتے جا رہے ہیں اور کم از کم ان کے لہجے اور الفاظ میں بوکھلاہٹ ظاہر ہونے لگی ہے ۔ مودی کہیں ملک کے شہید سپاہیوں کے نام پر ووٹ مانگ رہے ہیں تو کہیں پلواما حملے میں مرنے والوں کے نام پر ووٹ مانگ رہے ہیں۔ مودی کہیںبھی اپنی حکومت کی کارکردگی کو عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے اپنے ریکارڈ اور اسکیمات کے نام پر ووٹ مانگتے نظر نہیںآئے ۔ انہوں نے ہمیشہ اپنی تقاریر کا زیادہ تر حصہ اپوزیشن کو نشانہ بنانے ہی میں صرف کیا ہے ۔مودی کہیں یو پی جاتے ہیں اکھیلیش یادو اورمایاوتی کو نشانہ بناتے رہے ۔ اب وہ اکھیلیش اور مایاوتی میںدوریاں پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ انتخابات کے بعد انہیں ایسی جماعتوںکی ضرورت پڑیگی ۔ جب وہ بہار جاتے ہیں تو جس نتیش کمار کے ڈی این اے پر انہوں نے سوال کیا تھا ان کی تعریف کرتے نہیںتھکتے اور لالو پرساد یادو کو تنقیدوں کا نشانہ بناتے ہیں۔ کرناٹک میں انہوں نے کانگریس ۔ جے ڈی ایس اتحاد کو تنقیدوں کا نشانہ بنایا ۔ آندھرا پردیش میں چندرا بابو نائیڈو ان کے نشانہ پر رہے ۔ اسی طرح مغربی بنگال میں وہ ممتابنرجی کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔ وہاں بی جے پی کے دوسرے قائدین بھی ترنمول کو نشانہ بنانے سے گریز نہیں کرتے ۔ جب وہ دوسرے مقامات پر جاتے ہیں تو کانگریس کو نشانہ بنانا ان کا محبوب مشغلہ ہوگیا ہے ۔ وہ کانگریس کو نشانہ بنانے میں اس حد تک آگے بڑھ گئے ہیںکہ آنجہانی وزیرا عظم راجیو گاندھی کو بھی انہوں نے نشانہ بنانے سے گریز نہیں کیا ۔
کانگریس صدر راہول گاندھی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ان کے والد کی زندگی کرپٹ نمبر 1 کی حیثیت سے گذر گئی ہے ۔ سیاست میں ایک دوسرے کی مخالفت اور تعمیری تنقید یقینی طور پر ضروری ہے لیکن اس کیلئے بھی ایک حد کا تعین پہلے ہی سے ہے ۔ اس حد کو پار کرنے کی کسی کو اجازت نہیںہونی چاہئے چاہے وہ ملک کے وزیر اعظم ہی کیوں نہ ہوں۔ بلکہ وزیر اعظم پر تو اخلاقی حدود کی پابندی کرنے کی زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی لیکن نریندرمودی اقتدار پر دوبارہ قابض ہونے کیلئے کسی بھی حد تک جانے سے گریز نہیںکرتے ۔ وہ دو فرقوں میںقبرستان اور شمشان کا ریمارک کرتے ہوئے تفرقہ پیدا کرتے ہیں تو کہیں ہندو دہشت گردی کے نعرہ کی وجہ سے وہ سماج میں منافرت کو ہوا دینے لگتے ہیں۔ اب وہ ملک کے سابق وزیرا عظم کو جو اس دنیا میں نہیںرہے نشانہ بنا رہے ہیں اور ان کی خدمات کا کہیں تذکرہ نہیںکرتے ۔ ملک میں کمپیوٹر انقلاب راجیو گاندھی کی دین ہے ۔ ملک میںانفارمیشن ٹکنالوجی کے سفر کا آغاز راجیو گاندھی نے کیا تھا ۔ وہ اس ملک کی خدمت انجام دیتے ہوئے دہشت گردانہ کارروائی میں چل بسے ۔انہیںان کے کاموں کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنایا جاسکتا ہے لیکن جس طرح سے وزیر اعظم نے ان پر تنقید کی ہے اور جن الفاظ کا استعمال کیا ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ سیاسی اختلاف سے زیادہ شخصی دشمنی اور نظریاتی مخاصمت کا نتیجہ ہے ۔
ملک کے وزیراعظم ہوں یا دوسرے سیاستدان ہوں سبھی کو یہ بات ذہن نشین رکھنے کی ضرورت ہے کہ انتخابات تو آتے جاتے رہیں گے یہ جمہوری عمل کا حصہ ہیںلیکن ان کی وجہ سے اور محض اقتدار کے لالچ میں اخلاقی حدود کو پھلانگنے سے گریز کیا جانا چاہئے ۔ سیاسی اختلاف پوری شدت سے رکھا جاسکتا ہے لیکن اس کو شخصی دشمنی کی طرح اختیار کرلینا کسی بھی قیمت پر درست نہیں کہا جاسکتا ۔ سیاسی جماعتوں کے اختلافات ان کی پالیسیوں اور نظریات کی بنا پر ہوتے ہیں اور شخصیتوں سے نہیںہوتے ۔ جب تک ان باتوں کا خیال نہیں رکھا جاتا اس وقت تک ہماری جمہوریت کو صحتمنداور مستحکم رکھنے میں مدد نہیں ملتی ۔سیاسی بوکھلاہٹ میں رکیک جملوں کے استعمال سے ملک کے ہر عوامی نمائندے کو گریز کرنا چاہئے ۔