مودی ۔ کے سی آر لفظی تکرار

   

دوستی دوستی نہ پیار ہے پیار
سب کی ہے بول چال مصنوعی
ویسے تو سیاسی جماعتوں کے قائدین کے مابین ایک دوسرے کے تعلق سے بیان بازیاں عام بات ہیں۔ ایک دوسرے پر تنقیدیں کرتے ہوئے اپنے اپنے ایجنڈہ کو آگے بڑھایا جاتا ہے ۔ ایک دوسرے سے لفظی تکرار چلتی ہے ۔ ایک دوسرے کے پروگرامس ‘ اقدامات وغیرہ کو تنقیدوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے ۔ حکومتوں کی پالیسیوں سے اختلاف کیا جاتا ہے ۔ ان کی خامیوں اور نقائص کو پیش کیا جاتا ہے ۔ یہ جمہوری سیاست کا حصہ ہے اور ہر جماعت ایسا کرتی ہے ۔ تاہم تلنگانہ میں سیاسی اختلافات اب صرف سیاسی قائدین کے درمیان تک محدود نہیں رہ گئے ہیں بلکہ یہ دستوری عہدوں تک پہونچ گئے ہیں۔ ملک کے وزیر اعظم اور ریاست کے چیف منسٹر کے مابین بھی اب لفظی تکرار شروع ہوگئی ہے ۔ تلنگانہ میں آج کا دن کئی سیاسی سرگرمیاں دیکھی گئیں ۔ جہاں ملک کے وزیر اعظم نے تلنگانہ حیدرآباد کا دورہ کیا وہیں تلنگانہ کے چیف منسٹر بنگلورو کے دورہ پر روانہ ہوگئے ۔ وزیر اعظم نے تلنگانہ میں بی جے پی قائدین سے خطاب کرتے ہوئے ریاست کی ٹی آر ایس حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا اور اسے اقرباء پروری اور خاندانی حکمرانی قرار دیا ۔ وہیں کے سی آر نے وزیر اعظم کی تنقید کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ بھاشن بازی بہت ہوچکی ہے اور اب کچھ کام کیا جانا چاہئے ۔ جہاں نریندر مودی نے ریاست کی صورتحال کو نشانہ بنایا وہیں چیف منسٹر نے بھی اپنے رد عمل میں کہا کہ ملک میںافراط زر کی شرح بڑھ گئی ہے ‘ مہنگائی عروج پر ہے ‘ بیروزگاری بڑھ رہی ہے ‘ جی ڈی پی میں گراوٹ آ رہی ہے ‘ صنعتیں متاثر ہو رہی ہیں اور ایسے میں صرف بیان بازیوں سے کام نہیں چلنے والا بلکہ صورتحال سے نمٹنے کیلئے حکومت کو اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے حیدرآباد میں اپنے خطاب میں کہا کہ تشکیل تلنگانہ سے صرف ایک خاندان کو فائدہ ہوا ہے اور وہی اقتدار کے مزے لوٹ رہا ہے ۔ جہاں وزیر اعظم نے تلنگانہ کو خاندانی حکمرانی سے نجات دلانے کی بات کی وہیں چیف منسٹر کے سی آر نے دعوی کیا کہ قومی سطح پر تبدیلی آئے گی اور آئندہ دو تا تین ماہ میں سنسنی خیز خبر سننے کو مل سکتی ہے ۔
جہاں بی جے پی تلنگانہ میں اپنے دائرہ اثر کو وسعت دینے اور مستحکم سیاسی وجود منوانے کی کو شش کر رہی ہے وہیں چندر شیکھر راؤ قومی سطح پر بی جے پی کے خلاف محاذ آرائی کیلئے سرگرم ہوچکے ہیں۔ ویسے تو بی جے پی پہلے بھی ریاست میں اقتدار کیلئے کوشش کرچکی ہے اور کے سی آر بھی قومی سطح پر متبادل فراہم کرنے کیلئے کئی قائدین سے ملاقاتیں کرچکے ہیں لیکن دونوں ہی کو اپنی اپنی کوششوں میں کامیابی نہیں مل سکی تھی ۔ اب جبکہ تلنگانہ اسمبلی انتخابات اور پھر آئندہ عام انتخابات کا وقت قریب آتا جا رہا ہے ٹی آر ایس اور بی جے پی میں لفظی تکرار نے شدت اختیار کرلی ہے ۔ یہ اعلی ترین سطح تک پہونچ چکی ہے ۔ جہاں وزیر اعظم ٹی آر ایس کو نشانہ بنانے پر اتر آئے ہیں وہیں چیف منسٹر تلنگانہ بھی کرارا جواب دینے سے گریز نہیں کر رہے ہیں۔ اس صورتحال نے ریاست میں عجیب سی صورتحال پیدا کردی ہے ۔ دونوں ہی جماعتوں کے قائدین بیان بازیوں سے گریز نہیں کر رہے ہیں۔ ایک دوسرے کو نشانہ بنانے میں کسی بھی حد تک جانے سے بھی گریز نہیں کر رہے ہیں اور غیرشائستہ الفاظ کا استعمال عام ہوگیا ہے ۔ نریندرمودی اور کے سی آر کی باہمی لفظی تکرار بھی سیاسی اعتبار سے ایک دوسرے کیلئے ضروری ہو لیکن یہ ملک کی پارلیمانی جمہوریت کیلئے اچھی علامت نہیں ہے ۔ ایک دوسرے پر تنقیدیں انتخابی موسم میں تو کی جاستکی ہیں اور اس کی گنجائش بھی ہوسکتی ہے لیکن عام حالات میں دستوری عہدوں پر فائز افراد کو اس طرح کی تکرار اور تنقیدوں سے گریز کرنے کی ضرورت ہے ۔
جہاں تک بی جے پی اور ٹی آر ایس کا سوال ہے ان کے مابین ماضی میں در پردہ اچھے تعلقات رہے ہیں۔ مرکزی وزراء اور کئی سرکاری اداروں کی جانب سے جہاں کے سی آر حکومت کے اقدامات کی ستائش کی گئی ہے وہیں ٹی آر ایس نے کئی اہم مواقع پر مودی حکومت کی بالواسطہ اور راست مدد کرتے ہوئے اسے مشکلات اور پریشانیوں سے بچانے میں اہم رول ادا کیا ہے ۔ کئی قوانین منظور کروانے میں مدد کی ہے ۔ ایسے میں دونوں جماعتوں میں لفظی تکرار اب عوام کیلئے دلچسپ ہوگئی ہے ۔ تاہم دستوری عہدوں پر فائز افراد کو اپنے عہدوں کے وقار کا تحفظ کرتے ہوئے ناشائستگی سے گریز کرنے کی ضرورت ہے ۔