مولانا عرفان المصطفے قادری معراج شریف ایک عظیم معجزہ

   

حضور نبی اکرم نور مجسم سید عالم ﷺکے اعظم ترین معجزات سے یہ امر ہے کہ اللہ تعالی نے حضور ﷺکو اسراء و معراج سے وہ خصوصیت و شرف عطا فرمائی، جس کے ساتھ کسی نبی اور رسول کو مشرف و مکرم نہیں فرمایا اور جہاں اپنے محبوب ﷺ کو پہنچایا، کسی کو وہاں تک پہنچنے کا شرف نہیں بخشا۔ قرآن مجید میں اللہ تعالی نے فرمایا، جس کا ترجمہ یہ ہے: ’’پاک ہے جو لے گیا اپنے (خاص) بندے کو راتوں رات مسجد حرام سے مسجد اقصی کی طرف جس کے آس پاس ہم نے (بہت) برکت نازل فرمائی تاکہ ہم (اپنے) اس (بندۂ خاص) کو اپنی قدرت کی (خاص) نشانیاں دکھائیں۔ بے شک وہی سننے والا اور دیکھنے والا ہے‘‘۔ (سورہ بنی اسرائیل) اگرچہ استعمال میں اس مبارک سیر و سیاحت یعنی حضور اکرم ﷺ کا مسجد حرام سے مسجد اقصی اور وہاں سے آسمانوں اور لامکاں تک تشریف لے جانے کو معراج کہا جاتا ہے، لیکن محدثین و مفسرین کی اصطلاح میں حضور ﷺ کا مسجد حرام سے مسجد اقصی تک تشریف لے جانا اسراء کہلاتا ہے۔ کیونکہ قرآن مجید میں اللہ تعالی نے اس لفظ کو اسراء سے تعبیر فرمایا ہے اور مسجد اقصی سے آسمانوں کی طرف حضور علیہ الصلوۃ والسلام کا عروج فرمانا معراج کہلاتا ہے۔ کیونکہ اس کیلئے مدراج اور عروج کے الفاظ احادیث میں وارد ہوئے۔اللہ تعالی نے آیت اسراء میں عبد فرمایا، جس کا معنی بندہ ہے اور بندہ جسم اور روح کے مرکب و مجموعہ کو کہا جاتا ہے، جس سے ثابت ہوا کہ حضور ﷺکو روح کے ساتھ جسمانی معراج ہوئی اور اسی پر جمہور کا اتفاق ہے۔ جیسا کہ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے شرح مسلم شریف میں فرمایا ’’حق یہ ہے کہ نبی اکرم نور مجسم ﷺکو جسمانی طورپر اسراء و معراج کا شرف بخشا گیا۔ یہی جمہور علماء کرام، اکثر سلف صالحین، عام فقہاء اور محدثین و متکلمین کا مذہب ہے‘‘۔جسمانی معراج کی ایک بڑی دلیل یہ ہے کہ مشرکین مکہ کے سامنے حضور اکرم ﷺنے واقعہ معراج بیان فرمایا تو کفار قریش نے عادتاً محال ہونے کی بناء پر یکسر انکار کردیا اور حضور علیہ الصلوۃ والسلام کا مذاق اڑایا کہ رات کے ایک مختصر سے حصے میں اتنی لمبی مسافت طے کرنا بھلا کیسے ممکن ہے۔ اگر یہ واقعہ خواب کا ہوتا اور حضور علیہ الصلوۃ والسلام خواب کا واقعہ بیان کرتے تو مشرکین مکہ اسے سن کر حیرت زدہ نہ ہوتے اور حضور علیہ الصلوۃ والسلام کا مذاق نہ اڑاتے، کیونکہ خواب کی کوئی حد نہیں۔ بلکہ ایسے افعال جو عادتاً بحالت بیداری ناممکن ہیں، عالم خواب میں ہر ایک کے لئے یکساں طورپر ممکن ہے۔ اگر معاملہ خواب کا ہوتا تو مشرکین مکہ، حضور علیہ الصلوۃ والسلام کو جھوٹا ثابت کرنے کے لئے بیت المقدس اور اس کے دروازوں، کھڑکیوں اور دیواروں کے متعلق نہ پوچھتے۔جب حضور اکرم ﷺمسجد اقصی سے متعلق سوال پر خاموش کردینے والا جواب دے چکے تو کفار قریش حیران ہوگئے، کیونکہ وہ جانتے تھے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کبھی مسجد اقصی تک تشریف نہیں لے گئے۔