مہاراشٹرا میں نئی حکومت

   

مہاراشٹرا میں بالآخر نئی حکومت نے حلف لے ہی لیا ۔ حالانکہ چنددن قبل بھی دیویندر فڈنویس نے بھی بحیثیت چیف منسٹراور اجیت پوار نے بحیثیت ڈپٹی چیف منسٹر حلف لیا تھا لیکن یہ چار دن کی چاندنی ثابت ہوئی اور سپریم کورٹ کی جانب سے ایوان اسمبلی میںاکثریت ثابت کرنے کی ہدایت کے بعد یہ حکومت از خود مستعفی ہوگئی ۔ اجیت پوار بھی اپنے گھر یعنی این سی پی میں واپس ہوگئے ۔ اس کے بعد شیوسینا ۔ این سی پی اور کانگریس کی قیادت والی حکومت نے آج ممبئی کے شیواجی میدان پر عہدہ اور راز داری کا حلف لیا ہے ۔ اس تقریب حلف برداری میںچیف منسٹر ادھو ٹھاکرے کے علاوہ چھ وزراء نے بھی حلف لیا ہے اور ان چھ میں تینوں جماعتوں سے دو دو نمائندے شامل ہیں۔ مہاراشٹرا میں نئی حکومت کی حلف برداری کو بعض سیاسی گوشوں کی جانب سے اس تناظر میں دیکھا جا رہا ہے کہ یہ ملک میں نئی سیاسی صف بندیوں کا پیش خیمہ ہوسکتی ہے ۔ خاص بات یہ رہی کہ اس تقریب میں بے شمار سیاسی قائدین اپنی سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہوکر شریک ہوئے ہیں۔مہاراشٹرا میں جس طرح سے ان تینوں جماعتوں نے ایک اقل ترین مشترکہ پروگرام پیش کیا ہے اور اس میں جس طرح سے پہلا لفظ سکیولر استعمال کیا گیا ہے اس سے شیوسینا کی تصویر کو بدلتے ہوئے بھی دیکھا جاسکتا ہے ۔ حالانکہ کانگریس اور این سی پی ہمیشہ ہی سکیولرازم کی بات کرتے اور اس پر عمل کرتے رہے ہیں لیکن شیوسینا نے ہمیشہ ہندوتوا کی بات کہی تھی اور اسی کی پالیسیوں پر عمل کیا تھا لیکن اب اقل ترین مشترکہ پروگرام میںلفظ سکیولر کا استعمال کیا گیا ہے اور اس سے شیوسینا کے بدلتے تیور کو محسوس کیا جاسکتا ہے ۔ اس کے علاوہ شیوسینا نے وہ سیاسی حوصلہ اورہمت بھی دکھائی ہے جس سے دوسری ریاستوں کی علاقائی جماعتوںکو بی جے پی کے مد مقابل آنے کا حوصلہ بھی مل سکتا ہے ۔ بی جے پی جس طرح سے اپنی ہی حلیف جماعتوںکو اپنے دبدبہ کی وجہ سے قابو کرتی آئی ہے اور یہ تاثردیتی رہی کہ بی جے پی سے مقابلہ ممکن نہیںہے اس تاثر کو شیوسینا نے غلط ثابت کردکھایا ہے ۔ شیوسینا نے دوسری جماعتوں کو راہ دکھانے کی کوشش کی ہے ۔

مہاراشٹرا کی جو حکومت بنی ہے اب اس کے سامنے ایک اہم چیلنج ریاست میںایک مستحکم حکومت فراہم کرنے کا ہے ۔ جس طرح سے ان تینوں جماعتوں نے اتحاد کیا ہے اور بی جے پی جس طرح سے اندیشے پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہے کہ اس حکومت میں استحکام نہیں ہوگا تو ان تینوں جماعتوںکی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ بی جے پی کو غلط ثابت کردکھائیں اور ریاست میںایک مستحکم حکومت فراہم کرتے ہوئے عوام کی فلاح و بہبود کی سرگرمیوں کیلئے مصروف ہوجائیں۔ جو اقل ترین مشترکہ پروگرام تیار کیا گیا ہے اگراس پر پوری دیانتداری اور ذمہ داری کے ساتھ عمل کیا جاتا ہے تو پھر استحکام پر سوالات از خود ہی ختم ہوسکتے ہیں۔ جس طرح سے اقل ترین مشترکہ پروگرام میں واضح کیا گیا ہے کہ کسی بھی فرقہ کے لوگوں کو ریاست میںگھبرانے یا ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے وہ قابل خیر مقدم ہے ۔ اس طرح سے اقلیتوں میں ایک طرح کا اعتماد پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے تاہم یہ کوشش صرف ایک اعلان یا تیقن تک محدود نہیںہونی چاہئے بلکہ اس تیقن کو عملی شکل بھی دینے کی ضرورت ہے ۔ اقلیتوں کی فلاح و بہبود کیلئے بھی پوری سرگرمی سے اقدامات کرتے ہوئے ان کو نیا حوصلہ فراہم کرنا ان تینوں جماعتوںکی ذمہ داری ہے ۔ خاص طور پر کانگریس اور این سی پی کو اس معاملہ میں پوری ذمہ داری کے ساتھ اور انتہائی سرگرم رول ادا کرنے کی ضرورت ہے ۔

جس طرح سے مہاراشٹرا میں ایک نیا اتحاد قائم ہوا ہے اگر وہ کامیاب ہوجاتا ہے تو اس سے ملک کی دوسری ریاستوں میں بھی سیاسی صف بندیاں ہوسکتی ہیں۔ اب جبکہ جھارکھنڈ میں اسمبلی انتخابات کا عمل چل رہا ہے اس کے نتائج بھی اہمیت کے حامل ہوسکتے ہیں اور جو نتائج آئیں گے وہ بھی ملک کے سیاسی مستقبل کا تعین کرنے کیلئے اہمیت کے حامل ہونگے ۔ مہاراشٹرا کے نئے اتحاد سے نہ صرف مہاراشٹرا کے سیاسی مستقبل میںتبدیلی آئی ہے بلکہ اس سے ملک کے سیاسی مستقبل کو بھی بدلنے میں مدد مل سکتی ہے ۔ شائد یہی وجہ ہے کہ بی جے پی اس اتحاد کو کسی بھی قیمت پر حکومت سازی سے روکنا چاہتی تھی لیکن وہ اس میں کامیاب نہیں ہوئی ہے ۔ اب نئی حکومت کی ذمہ داریوں میں سب سے اہم بات مستحکم حکومت کی فراہمی اور اقل ترین مشترکہ پروگرام پر من و عن عمل آوری ہے۔