مہنگائی ‘ کسی کو احساس بھی ہے؟

   

زر خرید اور تلوے چاٹو ٹی وی اینکرس کی بدولت ہندوستان ایسا ملک ہوگیا ہے جہاں عوام کو درپیش انتہائی اہمیت کے حامل اور سلگتے ہوئے مسائل کی کوئی اہمیت نہیں رہ گئی ہے ۔ عوام کہیں پس منظر میں چلے گئے ہیں۔ ان پر مسلسل عائد ہونے والے بوجھ کی کسی کو فکر یا پرواہ نہیں ہے ۔ ہر کوئی اپنے ایجنڈہ پر عمل کرنے میں مصروف ہے ۔ جو نام نہاد قومی میڈیا ہے وہ حکومت کی دلالی میں مصروف ہے ۔ ایسے مسائل پر روزآنہ مباحث کرتے ہوئے عوام کے ذہنوں کو پراگندہ کیا جا رہا ہے جن سے ملک کی ترقی اور خوشحالی کا کوئی تعلق نہیں ہے ۔ یہ در اصل صرف اور صرف حکومت کی ناکامیوںکو چھپانے اور عوام کو مذہبی تعصب کا شکار کرتے ہوئے اپنے ایجنڈہ کی تکمیل کرنے کی کوشش کے سواء کچھ بھی نہیں ہے ۔ جو اینکرس ٹی وی پر بیٹھ کر مذہبی منافرت پھیلانے کا کام کر رہے ہیں انہیں مہنگائی سے کوئی سروکار نہیں ہے کیونکہ ان کو حکومت کے انعامات اور غلامی کی قیمت مل جاتی ہے اور وہ بیہودہ راگ الاپتے رہتے ہیں۔ یہی ان کی ڈیوٹی ہوگئی ہے ۔ ایک وقت تھا جب میڈیا عوام کو درپیش مسائل پر حکومت کو گھیرتا تھا ۔ حکومت کی ناکامیوں کو اس کے سامنے پیش کرتا تھا ۔ مہنگائی اور بیروزگاری جیسے مسائل کو اہمیت دی جاتی تھی ۔ اس پر حکومت سے جواب طلب کیا جاتا تھا ۔ اپوزیشن کے جذبات و احساسات کو پیش کرنے کی ذمہ داری میڈیا کی ہوا کرتی تھی لیکن اب تقریبا تمام چینلس حکومت کے زر خرید اداروں کی طرح کام کر رہے ہیں۔ وہ اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کو فراموش کرچکے ہیں۔ محض حکومت کی چاپلوسی اور تلوے چاٹنے میں لگے ہوئے ہیں اور ایسے میں انہوں نے عوام کو پیش آرہی روز مرہ کی مشکلات اور پریشانیوں کو فراموش کردیا ہے اور عوام کے ذہنوں سے بھی یہ مسائل محو کرنے کی کوشش کرنے میں لگے ہیں۔ آج مہنگائی ملک کا ایک بہت بڑا مسئلہ بن گئی ہے ۔ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ نے عام آدمی کا جینا مشکل کردیا ہے ۔ دو وقت کی روٹی کے سواء عام آدمی کو کچھ اور سجھائی نہیں دے رہا ہے ۔ ایک طرح سے حکومت اور عوام کے درمیان ایک خلیج پیدا ہوگئی ہے اور اس کو مزید بڑھایا جا رہا ہے ۔
پٹرولیم اشیا کی قیمتوں سے لے کر دودھ تک ‘ ادویات سے لے کر اناج تک ‘ دالوں سے لے کر ترکاری تک ہر شئے کی قیمتیں بڑھتی جا رہی ہیں۔ حکومت کے ذمہ داروں سے اگر اس پر سوال کیا جائے تو کوئی کہتا ہے کہ وہ لہسن نہیںکھاتے ۔ کوئی کہتے ہیں کہ وہ پیاز استعمال نہیں کرتے ۔ خود وزیر اعظم اس انتہائی حساس اور اہمیت کے حامل مسئلہ پر ایک لفظ تک کہنے کو تیار نہیں ہیں۔ ہر اہم اور غیر اہم مسئلہ پر اپنے ریمارکس دینے کیلئے شہرت رکھنے والے وزیر اعظم ملک کے عوام کو درپیش انتہائی اہم اور سنگین مسئلہ پر کوئی تبصرہ کرنے یا عوام کو تسلی و دلاسہ دینے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ من کی بات پروگرام میں کئی مسائل کا احاطہ کرنے والے نریندر مودی مہنگائی کے مسئلہ کا تذکرہ کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ وہ میڈیا کا سامنا بھی نہیں کرنا چاہتے ۔ آٹھ سال کے اقتدار میں انہوں نے ایک پریس کانفرنس تک نہیں کی ہے ۔ وہ صرف اپنے من کی کہہ دیتے ہیں اور عوام کی یا اپوزیشن کی کچھ بھی سننے کو تیار نہیں ہیں۔ مہنگائی کی وجہ سے عوام کیلئے دو وقت کی روٹی حاصل کرنا مشکل ہوگیا ہے ۔ اگر پیٹ کی آگ بجھائی جائے تو دوا سے محرومی ہیں۔ دوا مل جائے تو تعلیم کے اخراجات برداشت کرنا ممکن نہیں رہ گیا ہے ۔ اس صورتحال میں کوئی گوشہ ایسا نہیں رہ گیا ہے جو اس مسئلہ کو پوری شدت کے ساتھ اور اس کی اہمیت کے ساتھ اجاگر کرتے ہوئے حکومت سے جواب طلب کرے ۔ اپوزیشن جماعتیں بھی اس مسئلہ پر اپنی ذمہ داری پوری نہیں کر رہی ہیں۔
ملک میں مستحکم اور مضبوط اپوزیشن نہ ہونے کی وجہ سے حکومت پر دباؤ بنانے کا کوئی راستہ نہیں رہ گیا ہے ۔ جہاں تک علاقائی جماعتوں کا مسئلہ ہے وہ راست مرکز سے ٹکراؤ یا اختلاف سے گریز کرتی جا رہی ہیں ۔ کوئی کسی اور جماعت کے ساتھ کام کرنے تیار نہیں ہے ۔ ایسے میں اپوزیشن بھی عوامی مسائل کو اجاگر کرتے ہوئے حکومت سے جواب طلب کرنے کے موقف میں نہیں ہے ۔ اپوزیشن جماعتوں کو اس مسئلہ پر باہمی اشتراک سے جامع حکمت عملی تیار کرتے ہوئے باضابطہ احتجاج شروع کرنے کی ضرورت ہے ۔ مسلسل احتجاج کے ذریعہ ہی حکومت کو اس اہم اور بنیادی مسئلہ پر توجہ دینے کیلئے مجبور کیا جاسکتا ہے ۔