میر قمر الدین خان نظام الملک آصف جاہ اوّل

   

رحمت اللہ خاں سوری
کرنول ( اے پی)

میر قمر الدین خان کے خطابات چین قلیج خان، خان دوراں، آصف جاہ، فتح جنگ اور نظام الملک ہیں۔ آپ کے انتقال کے بعد آپ کو مغفرت مآب کا لقب دیا گیا۔ نظام الملک آصف جاہ اول 1671ء میں دہلی میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والدین ترکستان سے ہندوستان آئے تھ۔ آپ کا شجرہ شیخ شہاب الدین سہروردی سے شروع ہوکر حضرت خلیفہ اول ابوبکر صدیق ؓ پر ختم ہوتا ہے۔
آپ کے آباء و اجداد اعلیٰ تعلیم یافتہ ، فن سپاہ گری کے گُر اور سیاست سے بخوبی واقف تھے۔ اسی وجہ مغلیہ سلطنت میں اعلیٰ عہدوں پر فائز تھے۔ آپ کے نانا شاہ جہاں کے دور حکومت میں وزیراعظم تھے اور دادا اورنگ زیب کے اتالیق تھے۔ مغفرت مآب کے دادا کا نام خواجہ عابد قلیج خان تھا۔ آپ کی والدہ کا نام سعید النساء بیگم تھا۔ والد صاحب کا اِسم گرامی شہاب الدین غازی الدین خان فیروز جنگ تھا۔ جو عہدِ شاہ جہاں میں مغل سلطنت کے وزیر اعظم تھے۔
نظام الملک آصف جاہ اول بچپن سے بے حد ہوشیار وچالاک تھے۔ آپ کے والد آپ کو اورنگ زیب کے دربار میں لے جایا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ اورنگ زیب نے نظام الملک کی بے حد تعریف کی اور کہا کہ یہ بچہ بہت ہوشیار ہے، ہفتہ میں ایک مرتبہ انہیں دربار کو لایا کرو۔ ایک مرتبہ اورنگ زیب باغ میں سیر و تفریح میں مصروف تھے اور ساتھ میں نظام الملک بھی تھے جب ان کی عمر 16 سال کی تھی۔ اورنگ زیب نے باغ میں ایک درخت پر نگاہیں ڈال کر کہا کہ : ’’کیا بات ہے یہ درخت بڑھتا نہیں ہے ۔‘‘ بادشاہ کا یہ بیان سُن کر کسی بھی درباری نے جواب نہیں دیا، لیکن نظام الملک نے کہا کہ : ’’ اس درخت کے اطراف بڑے درخت ہیں جس کی وجہ سے یہ درخت پنپ نہیں رہا ہے۔‘‘ جواب سُن کر بادشاہ اورنگ زیب بہت خوش ہوئے اور تعریف بھی کی۔ اورنگ زیب کے زیر سایہ جید عالموں نے نظام الملک کو عمدہ تعلیم و تربیت دی۔ سپہ گری کے گُر سے بھی آراستہ ہوئے۔ 19 سال کی عمر سے تادم تلوار کے قبضے پر ہاتھ رہا۔عربی، فارسی اور ترکی زبانوں پر عبور حاصل ہوا۔ شاعری بھی کرتے تھے۔ فارسی میں ان کے دو دیوان ہیں۔ دور اندیشی، فراست، تدبر ، حاضر جوابی، بزلہ سنجی، اخلاص ، صحیح قوتِ فیصلہ، شجاعت و سخاوت، نیکوکاری، تحمل، رعایاپروری و انسان دوستی ان کی شخصیت کا خاصہ ہیں۔ انہوں نے چار شادیاں کی تھیں۔ جن سے چھ لڑکے اور چھ لڑکیاں پیدا ہوئیں۔ چھ لڑکوں کے نام یہ ہیں : (1) حافظ محمد پناہ امیرالامراء فیروز جنگ غازی الدین خان ثانی (2) میر احمد خان نظام الدولہ ناصر جنگ (3) سید محمد خان امیرالملک صلابت جنگ (4) میر نظام علی خان آصف جاہ ثانی (5) محمد شریف خان شجاع الدولہ شجاع الملک بسالت جنگ (6) میر مغل علی خان ناصرالملک ہمایوں جاہ ۔ دخترانِ نیک اختر کے اِسم گرمی یہ ہیں : (1) خیرالنساء بیگم (2) بادشاہ بیگم (3) مکرمہ بیگم (4) محسنہ بیگم (5) خجستہ بیگم(6) ماہ نو بیگم۔
نظام الملک آصف جاہ اول ہمت والے اور حوصلہ مند تھے۔ شجاعت و بہادری میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ پھر بھی وہ امن پسند تھے۔ جنگ لڑنے میں پہل نہیں کرتے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ جنگ کے نتائج کیا ہوتے ہیں۔ جنگ وجدل سے خون خرابہ ہوتا ہے ، عورتیں بیوہ اور بچے یتیم ہوجاتے ہیں۔ ماتم وشیون کا ماحول پیدا ہوتا ہے۔ ویسے اس زمانے میں بجلی نکاسی کا انتظام نہییں تھا۔ ہر جگہ کیچڑ، خاردار درخت و جھاڑیاں، سانپ ، بچھو، آدم خور جانور، رہزن اور ٹھگوں کا ڈر و خوف لگا رہتا تھا۔ حمل و نقل اور رسل و رسائل کی سہولتوں کا فقدان تھا۔80% سے زیادہ آبادی ہندوؤں کی تھی۔ ان نامساعد حالات میں اتنی بڑی ریاست پر حکومت کرنا گڑیوں کا کھیل نہیں تھا۔
1690 ء میں جب کہ آپ کی عمر 19 سال تھی اورنگ زیب نے آپ کو منصب چار ہزاری اور قلیج خان کے خطاب سے نوازا تھا۔ قلعہ واکھن کھیڑہ کی جنگ میں نظام الملک کامیاب وکامران ہوکر آنے پر پانچ ہزاری منصب سے نوازا، اور کرناٹک کا فوجدار بنایا ۔ اورنگ زیب نے نظام الملک آصف جاہ اول کو ایک انگوٹھی دی تھی جس پر چین قلیج خان کندہ تھا۔
1707 ء میں اورنگ زیب کا انتقال ہوتا ہے جس کے بعد مغلیہ سلطنت میں خانہ جنگی شروع ہوتی ہے۔اس وقت نظام الملک احتیاط سے کام لیتے ہیں۔ شاہ عالم اول کی تخت نشینی پر آپ کو خانِ دوراں کا خطاب دیا جاتا ہے۔لکھنؤ کی فوجداری و صوبہ داری بھی دی جاتی ہے۔
مغلیہ سلطنت کے تاج و تخت کیلئے آپسی جھگڑوں کو دیکھ کر آپ دہلی آجاتے ہیں اور استعفی دے کر گوشہ نشینی اختیار کرلیتے ہیں۔ جہاں دارشاہ بادشاہ بننے کے بعد آپ کو بلایا اور تمام اعزازات سے سرفراز کیا۔ 1716ء میں فرخ سیر تخت نشین ہوکر آپ کو فتح جنگ نظام الملک کا خطاب دیا تھا۔ 7 ہزاری منصب اور 7ہزار سوار سے سرفراز کیا اور ساتھ ہی ساتھ دکن کا صوبیدار بھی بنایا۔اس دورانیہ میں مغلیہ سلطنت میں سید برادران سادات بارہہ کی طوطی بول رہی تھی۔ یہ سید برادران جسے چاہے بادشاہ بناتے تھے اور جسے چاہے معزول کردیتے تھے۔ اس طرح مغلیہ دربار میں بے سمتی اور نفسا نفسی کا عالم تھا۔ یہ سید برادران نہ صرف مغلیہ بادشاہوں کے بلکہ نظام الملک آصف جاہ اول کے بھی جانی دشمن بنے بیٹھے تھے۔ مغل بادشاہ مجبور تھے۔ نظام الملک نے ان سید برادران پر قابو پانا چاہا تو انہوں نے نظام الملک کو 1712ء میں مالوے کا گورنر بناکر دور روانہ کرنا چاہا تاکہ نظام الملک کا اثر و رسوخ مٹ جائے۔ لیکن آصف جاہ اول نے مالوہ جانے کے بجائے دکن کا رُخ کیا اور دکن میں ریاست کو سنبھالنے میں جُٹے رہے۔ دکن جانے کے راستے میں سیدوں نے آصف جاہ کو روکنا چاہا۔ کئی جنگیں ہوئیں۔ مرہٹے بھی آصف جاہ کے دشمن بن گئے تھے۔ آصف جاہ کو ان جنگوں میں کامیابی ہوئی اور وہ اورنگ آباد پہنچے۔ اس کے بعد آصف جاہ اول کو دہلی کو بلایا جاتا ہے ، جہاں برہان الملک آصف جاہ اول اور محمد شاہ تینوں مل کر سید برادران کا مقابلہ کرکے ان کے دبدبے اور اقتدار کا خاتمہ کردیتے ہیں۔ برہان الملک کے انتقال کے بعد آصف جاہ کو وزیر اعظم بنادیا جاتا ہے۔ حکومت کا خزانہ خالی ہوجانے کے باوجود اور محدود سپاہیوں کے سہارے مرہٹوں سے جنگ ہوتی ہے اور اس جنگ میں آصف جاہ اول ہار جاتے ہیں اور باجی راؤ سے اقرار نامہ ، بھوپال کے تحت 1738 میں صلح کرنا پڑتا ہے۔
مغل بادشاہ محمد شاہ کی نااہلی ، شراب خوری اور من مانی زندگی سے تنگ آکر اورنگ آباد کا رُخ کرتے ہیں۔ دکن میں ان کے منجھلے بیٹے ناصر جنگ آصف جاہ اول کی نیابت کررہے تھے ۔ جب ناصر جنگ کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ نظام الملک اورنگ آباد آرہے ہیں تو خود بادشاہ بنے رہنے کی غرض سے والد سے جنگ لڑتے ہیں۔ اس جنگ میں نظام الملک کو کامیابی و کامرانی نصیب ہوتی ہے۔ ناصر جنگ کو شکست کا منہ دیکھنا پڑتا ہے۔ نظام الملک جنگ جیتنے کے بعد سپاہیوں کو وطن جانے اور خاندان والوں سے ملنے کی اجازت دے دیتے ہیں۔ سپاہیوں کی کمی کا فائدہ اُٹھانے کی غرض سے ناصر جنگ یعنی نظام الملک آصف جاہ اول کے منجھلے بیٹے ایک اور جنگ لڑتے ہیں۔ اس وقت نظام الملک اپنی توپوں کے سہارے یہ جنگ جیت لیتے ہیں اور اپنے بیٹے کو قید کردیتے ہیں لیکن ایک قلیل مدت کے بعد بیٹے کو قید سے رہا کرکے گلے سے لگالیتے ہیں۔
کون کون آصف جاہ اول کے دشمن تھے۔ مرہٹے اور جاٹ ان کے دشمن تھے۔ سید برادران دہلی کے بادشاہ گر کٹر دشمن تھے۔ خود باشاہ ِ وقت محمد شاہ درپردہ ان کا دشمن تھا۔ عیاں راچہ بیاں ،ان کا بیٹا خود ان کا دشمن تھا۔ ایک نواسہ مظفر جنگ بھی ان کا دشمن تھا۔ان مشکل حالات میں وہ خندہ پیشانی سے زندگی گذاررہے تھے۔، ایک اور دشمن جو باہر کا تھا یعنی نادرشاہ جس نے مغل بادشاہ محمد شاہ کی حکومت پر 1738 ء میں حملہ کیا اور قتل عام کرکے دہلی کو نیست و نابود کردیا۔
نظام الملک نے نادرشاہ سے لڑکر جیتنے کا منصوبہ تیار کیا تھا لیکن برہان الملک نے اس پر عمل نہیں کیا جس کی وجہ مغلیہ سلطنت کو شکست کا مُنہ دیکھنا پڑا۔ جنگ کے دوران کسی نے بادشاہ نادرشاہ پر گولی چلادی گو نشانہ چوک گیا لیکن بادشاہ نادرشاہ غیظ و غضب میں آکر قتل عام کا حکم دیتا ہے، جس کی وجہ معصوم بچے، عورتیں ، بوڑھیاں، بوڑھے قتل کردیئے جاتے ہیں۔ خون کا دریا بہتا ہے ، ایسے بُرے وقت میں نادرشاہ سے مل کر جنگ روکنے کی کسی میں ہمت نہیں تھی سوائے آصف جاہ اول کے۔ آصف جاہ اول نادر شاہ سے ادب سے ملتے ہیں اور نادرشاہ سے گزارش کرتے ہیں: ’’ اب کوئی زندہ نہیں رہا، اگر قتل کرنا چاہتے ہو تو مُردوں کو زندہ کرکے قتل کرو ۔‘‘ نادرشاہ فارسی میں یہ جملہ کہتے ہوئے قتل عام کو روک دیتا ہے: ’’ بریش سفیدت بخشیدم ‘‘ ( یعنی ’’تمہاری داڑھی کے سفید بالوں کو دیکھ کر معاف کررہا ہوں۔‘‘ اس طرح قتلِ عام رُک جاتا ہے۔
احمد شاہ ابدالی کابل کا بادشاہ 1747ء میں دہلی پر حملہ کرنے کا منصوبہ بناتا ہے۔ اس منصوبے کی اطلاع ملتے ہی دہلی کا بادشاہ آصف جاہ اول کی مدد کیلئے اورنگ آباد کو قاصدوں کو بھیجتا ہے۔1748ء میں آصف جاہ اول بادشاۂ دہلی کی مدد کے لئے فوج لے کر نکلتے ہیں۔ راستے میں نظام الملک آصف جاہ اول کی طبیعت خراب ہوجاتی ہے۔ وہ دہلی جا نہیں پاتے، راستے میں ہی مئی کی 22 تاریخ کو 1748 میں بانی آصفیہ حکومت کا چراغ گُل ہوجاتا ہے۔ اس وقت تک دکن کا صدر مقام اورنگ آباد ہی تھا۔ میر نظام علی خان آصف جاہ ثانی کے دورِ حکومت میں حیدرآباد کو پایہ تخت بنایا جاتا ہے۔ آصف جاہ اول جب کبھی حیدرآباد آتے تو آصف نگر میں قیام کیا کرتے۔ آ پ نے 79 سال کی عمر میں وفات پائی۔

آپ کا خاندان 17-9-1948 تک دکن میں حکومت کیا۔ مغُفرت مآب کے خاندان کے 9 بادشاہوں نے دکن پر حکومت کی تھی۔ آصفیہ دورِ حکومت 1713ء سے شروع ہوتا ہے اور 1948ء کو اختتام پر پہنچتا ہے۔ آصفیہ دور کے تمام بادشاہوں کے نام یہ ہیں : (1) حضرت مغفرت مآب قمر الدین خان نظام الملک آصف جاہ اول (2) نواب میر احمد خان نظام الدولہ ناصر جنگ ہدایت محی الدین خان مظفر جنگ (2) سید محمد خان امیر الممالک آصف الدولہ صلابت جنگ (2) حضرت غفران مآب نواب میر نظام علی خان نظام الدولہ نظام الملک فتح جنگ آصف جاہ ثانی (3) حضرت مغفرت منزل نواب میر اکبر علی خان سکندر جاہ آصف جاہ ثالث (4) حضرت غفران منزل نواب میر فرخندہ علی خان ناصر الدولہ آصف جاہ رابع (5) حضرت مغفرت مکان نواب میر تہنیت علی خان افضل الدولہ آصف جاہ خامس (6) حضرت غفران مکان نواب میر محبوب علی خان آصف جاہ سادس (7) حضرت سلطان العلوم نواب میر عثمان علی خان آصف جاہ سابع ۔
آصف جاہ اول کے دورِ حکومت میں پرتگالی، انگریز اور فرانسیسی دکن میں تجار ت کرنے کی غرض سے آچکے تھے اور موقع محل دیکھ کر ہندوستانی باشاہوں کے درمیان جنگیں لڑوایا کرتے تھے اور اپنی اپنی حکومت قائم کرنے کی کوشش میں لگے رہتے تھے۔ آصف جاہ اول ان ولاییتوں سے مل جل کر رہتے تھے جو ان کی حکمت عملی تھی۔ آصف جاہ اول کو اپنے دورِ حکومت میں مرکز یعنی دہلی اور دکن کی حکومتوں کو سنبھالنے میں اتنے منہمک تھے کہ ان کو کوئی عالی شان عمارتیں بنوانے کا موقع نہیں ملا۔ پھر بھی حیدرآباد میں کنگرہ دار فصیل اور جلو خانہ، اورنگ آباد کی عمارت نو کھنٹا و دیوان عام اور ہرسول کے نہر کی ترمیم انہوں نے بنوائی۔٭