میڈیا ماحول بنانے کوشاں

   

شبِ سیاہ کی تاریکیاں سمٹتی ہیں
اب اس کے بعد سحر ہی سحر ہے رات نہیں
سارے ملک میں انتخابی ماحول گرم ہونے لگا ہے اور انتخابی و سیاسی سرگرمیاں عروج پر پہونچ رہی ہیں۔ سیاسی جماعتیں اور امیدوار عوام میںپہونچتے ہوئے ان کی تائید اور ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ عوام کو سبز باغ دکھائے جا رہے ہیں۔ انہیں ہتھیلی میں جنت دکھائی جا رہی ہے ۔ ان سے بے شمار وعدے کئے جا رہے ہیں۔ بلند بانگ دعوے ہو رہے ہیں اور اپنے مخالفین کو نشانہ بنانے میں بھی کوئی کسر باقی نہیں رکھی جا رہی ہے ۔ یہ انتخابی عمل کے دوران معمول کا ماحول ہے اور یہ سرگرمیاں عام بات ہیں۔ یہ سارا کچھ سیاسی جماعتیں اور امیدوار کرتے ہیں۔ تاہم گذشتہ کچھ برسوں میں دیکھا گیا ہے کہ ہمارے ملک کے میڈیا گھرانے اور چاپلوس اینکرس بھی اس انتخابی عمل میں فریق بن گئے ہیں۔ حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہیں۔ سچ کو ایک الگ رنگ دیتے ہوئے بدلنے کی کوشش کی جاتی ہے اور حکومت اور برسر اقتدار جماعت کے حق میں رائے عامہ ہموار کرنے کی کوششیں بے تکان کی جاتی ہیں۔ اب بھی یہ کوششیں شروع ہوچکی ہیں۔ سروے اور اوپینین پول کے نام پر کچھ نام نہاد میڈیا گھرانے بنیادی مسائل سے توجہ ہٹاتے ہوئے شخصیت پرستی اور ایسی باتوں کو عوام میںپیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جن کا انتخابی عمل سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔سیاسی جماعتیں اور امیدوار اگر ایک دوسرے کے تعلق سے الزامات عائد کرتے ہیں اور اپنے اپنے وعدوں کی تشہیر کرتے ہیں تو یہ بات سمجھ میں بھی آتی ہے ۔ تاہم میڈیا کو اس سارے معاملے میں غیر جانبدار رہنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ یہی اس کا فریضہ بھی ہے اور حقائق کو چھان بین کرتے ہوئے عوام کے سامنے پیش کرنا اس کی ذمہ داری ہے ۔ آج کا میڈیا اقتدار کاچاپلوس دائرہ بن کر رہ گیا ہے اور جو کبھی صحافی ہوا کرتے تھے وہ صرف ٹی آر پی بٹورنے والے اینکرس ہیں جو اپنے پیشہ سے بد دیانتی کرتے ہوئے اقتدار کے تلوے چاٹنے میں مصروف ہوگئے ہیں۔ پانچ ریاستوں راجستھان ‘ مدھیہ پردیش ‘ چھتیس گڑھ اور تلنگانہ میں انتخابات کا عمل چل رہا ہے اور ساتھ ہی گودی میڈیا اور اینکرس کی سرگرمیاں بھی بڑھ گئی ہیں۔ یہ لوگ اپنے فرض سے زیادہ خوشامد پسندی میں مصروف نظر آ رہے ہیں۔
انتخابات کے موسم میں ذرائع ابلاغ اور میڈیا گھرانوں کا اور حقیقی صحافیوں کا یہ فرض ہوتا ہے کہ سیاسی جماعتوں اور امیدواروں کے دعووں کی سچائی اور حقیقت کی چھان بین کریں۔ ان کے سابقہ وعدوں کا تجزیہ کریں اور یہ پتہ چلانے کی کوشش کریںکہ ان کی کارکردگی کیسی رہی ہے ۔ انہوں نے سابق میں اپنے وعدوں کے مطابق کتنا کام کیا ہے ۔ وہ عوام کی خدمت میں سنجیدہ ہیں بھی یا نہیں ۔ ایسا کرتے ہوئے عوام کو اپنے نمائندوں کے انتخاب میں رہنمائی اور رہبری کی جاسکتی ہے ۔ یہ کام میڈیا ہی کا ہے ۔ تاہم آج کا میڈیا ایسا کرنے کی بجائے حکومت اور برسر اقتدار جماعت کی چاپلوسی کرنے میں مصروف ہوگیا ہے ۔ زمینی حقائق کا پتہ چلاتے ہوئے انہیں عوام کے سامنے لانے کی بجائے رائے عامہ ہموار کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ یہ کوشش کی جا رہی ہے کہ عوام کو حقیقی اور بنیادی مسائل سے بھٹکا دیا جائے ۔ انہیں ایک مخصوص سوچ اور نظریہ کے تئیں ہموار کیا جائے اور ایک مخصوص جماعت یا امیدوار کے حق میں رائے دہی کیلئے تیار کیا جائے ۔ یہ پیشہ ورانہ بد دیانتی ہے ۔ ایسا کرتے ہوئے سماج اور عوام کی خدمت نہیں بلکہ بد خدمتی کی جا رہی ہے ۔ رائے دہندوں پر اثر انداز ہونے اور ان کی رائے کو توڑنے مروڑنے کی کوششیں در اصل پیشہ صحافت سے دغاء کرنے کے برابر ہے اور ایسا آج کل دھڑلے سے کیا جا رہا ہے اور کئی گوشے ایسی حرکتوں میں ملوث ہوگئے ہیں۔ میڈیا گھرانوں پر جب سے صنعتی گھرانوں کا تسلط ہوا ہے اس وقت سے پیشہ کا تقدس پامال ہونے لگا ہے اور تجارتی اور سیاسی اغراض کی تکمیل پر زیادہ توجہ کی جا رہی ہے ۔
وسطی ہند کی ریاستوں رجستھان اور مدھیہ پردیش کے علاوہ چھتیس گڑھ میں خاص طور پر یہ چاپلوس اینکرس اور مفاد پرست میڈیا گھرانے زیادہ سرگرم نظر آتے ہیں۔ تلنگانہ میں چونکہ بی جے پی کہیں بھی منظر میں نہیں ہے اس لئے زیادہ توجہ اس پر نہیں دی جا رہی ہے ۔ تین ریاستوں میں زمینی حقائق کو سمجھنے اور اس کا جائزہ لیتے ہوئے عوام کو با خبر کرنے کی ضرورت ہے لیکن وہاں بھی چاپلوسی کی حدیں پار کی جا رہی ہیں۔ بنیادی مسائل کو پس منظر میں ڈھکیلنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور عوام کو گمراہ کیا جا رہا ہے ۔ حالانکہ سوشیل میڈیا اس کا توڑ بن کر ابھرا ہے لیکن رائے دہندوں کو بھی اس تعلق سے چوکس رہنے کی ضرورت ہے ۔
مفت راشن کی اسکیم
مرکزی حکومت نے ملک میں اس کے دعوے کے مطابق 80 کروڑ افراد کو مفت راشن کی اسکیم میں مزید پانچ سال کی توسیع کردی ہے ۔ ایک طرف حکومت دوسری جماعتوں کی حکومتوں کی جانب سے مفت اسکیمات کی مخالفت کرتی ہے اور خود پانچ کیلو چاول عوام میں تقسیم کرنے کا فیصلہ کرتی ہے ۔ یہ حکومت کی مفاد پرستی ہے ۔ اس کے علاوہ حکومت یہ بھی دعوی کرتی ہے کہ اس نے اپنے نو سال کے دور اقتدار میں عوام کو غریبی کی حد سے اوپر اٹھانے میں کئی اقدامات کئے ہیں اور کروڑہا افراد خط غربت سے اوپر آگئے ہیں۔ جب ان دعووں میں سچائی اور حقیقت ہے تو پھر وہ کون سے غریب افراد ہے جنہیں حکومت ہر ماہ پانچ کیلو چاول یا راشن مفت تقسیم کر رہی ہے ۔ حکومت کو اور اس کے ذمہ داروں کو اس بات کی وضاحت کرنے کی ضرورت ہے کہ اس کے کس دعوی میں سچائی ہے اور ملک میں عوام کی حقیقی صورتحال کیا ہے ۔ ویسے بھی ماہانہ محض پانچ کیلو چاول کسی بھی فرد یا خاندان کیلئے کوئی معنی نہیں رکھتے لیکن حکومت اس کے ذریعہ بڑا سیاسی فائدہ حاصل کررہی ہے اور اس کیلئے ملک کے غریب عوام کا استحصال کیا جا رہا ہے ۔ انہیں محض پانچ کیلو راشن تک محدود رکھتے ہوئے دیگر مسائل سے ان کی توجہ ہٹانے کی کوشش کر رہی ہے ۔ حکومت کو اس طرح کی سستی شہرت حاصل کرنے کی کوششوں سے گریز کرتے ہوئے عوام کیلئے ٹھوس اقدامات کرنے چاہئیں۔