میڈیا میں مرکز کے معاملے کو فرقہ وارانہ رنگ دینا۔ سپریم کورٹ کی مرکز کو نوٹس

,

   

نئی دہلی۔مذکورہ سپریم کورٹ آف انڈیا نے چہارشنبہ کے روز مرکزسے اس درخواست پر ردعمل مانگا ہے جس میں دہلی کے نظام الدین مرکز میں منعقد ہونے والے مذہبی اجتماع کو فرقہ وارانہ رنگ دینے والے میڈیا کے خلاف سخت کاروائی کی مانگ کی گئی ہے

۔چیف جسٹس ایس اے بابڈی‘ جسٹس اے ایس بوپنا اور ہری کیش رائے پر مشتمل ایک بنچ نے مذکورہ درخواست گذار کو ہدایت دی ہے کہ وہ نیوز برکاڈ کاسٹر اسوسیشن (این بی اے) کے علاوہ

ایڈیشنل سالسیٹر جنرل کے ایم نٹراج کو حکومت کے تحت کیبل ٹیلی ویثرن نٹ ورک(ریگولیشن) ایکٹ1995کے دفعہ 19اور20کے تحت کیوں کاروائی نہیں کی گئی ہے اس کے متعلق ایک وضاحتی جواب داخل کرنے کے لئے نفاذ کریں۔

مرکز سے ردعمل مانگتے ہوئے سی جے ائی ایس اے بابڈی نے کہاکہ ”لوگوں کو نظم ونسق کے معاملے پر بھڑکانے کے لئے نہیں چھوڑا جاسکتا ہے‘ اس طرح کی چیزیں بعد میں نظم ونسق کا مسئلہ بنتے ہیں“۔

ایک ہی گوہار پر مشتمل تین درخواست کو عدالت عظمیٰ نے ایک یکجا کیاہے۔

جمعیت علمائے ہند کی طرف سے سینئر وکیل دوشنت دیو رجوع ہوئے تھے جبکہ ڈی جے حالی فیڈریشن برائے مسجد مدارس اور وقف ادارہ جات کی جانب سے وکیل عادل احمد پیش ہوئے تھے۔

اپنی بحث میں سینئر وکیل دوشنت دیو نے کہاکہ ”فرضی خبریں ہمارے ملک کے سکیولر ڈھانچے کو نقصان پہنچارہی ہیں“ اور سپریم کورٹ پر زوردیا کہ وہ فوری کاروائی کرے۔

مسٹر دیو نے میڈیا میں ہورہی مبینہ فرقہ وارانہ نوعیت کی رپورٹ پر توجہہ مرکوز کرنے کی بھی عدالت سے گوہار لگائی ہے۔

انہوں نے پرزور انداز میں کہاکہ اس طرح کی رپورٹنگ قانون کی شدید خلاف ورزی ہے اور لہذا فوری کاروائی کی جائے کیونکہ درکار وقت بھی گذر جاچکا ہے۔

دیو نے کہاکہ ”یہ ناشرین وغیرہ نے قانون کے تحت جرم کیاہے۔ حکومت کیوں خاموش ہے؟“۔

سی جے ائی”ہم تمام معاملات پر سنجیدہ ہے۔ بارہا ان معاملات کو سنگین نا کہیں“۔

جمعیت علماء ہند جو کہ ایک اسلامی تنظیم ہے نے کرونا وائرس کی وباء کو ملک بھر میں پھیلانے کا ذمہ دار ٹہراتے ہوئے

مسلمانوں کی شبہہ کو متاثر کرنے کے لئے میڈیا کے کچھ حصہ نے ”فرقہ وارانہ سرخیاں“ اور ”بھڑکاؤ بیانات“ کا استعمال کیا‘ جس کی وجہہ سے مسلمانوں کی زندگیوں کو خطرہ ہونے کے حوالے سے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایاتھا۔

مذکورہ درخواست ایڈوکیٹ اعجاز مقبول کے ذریعہ داخل کی گئی تھی جس میں حکومت بالخصوص وزرات انفارمیشن کو ائین کی دفعات کے تحت توڑ مروڑ کر خبروں کی اشاعت کرنے کے خلاف کاروائی میں ناکام قراردیاگیا ہے