نئے سال میں معاشی انحطاط کے اندیشے

   

قصر عمر گواہی دے گا کیسے کیسے کرب سہے
کیسی کیسی رت گزری ہے ہم پر اتنے سالوں میں

دو دن قبل ہی دنیا نے نئے سال 2023 کا استقبال کیا ہے ۔ سال گذشتہ جو مشکلات اور مسائل دنیا کے سامنے اور جن چیلنجس سے نمٹنا پڑا تھا ان کے بعد یہ امید کی جا رہی ہے کہ نئے سال میں ان کا ازالہ ممکن ہوسکے گا اور دنیا بھر میں حالات بہتر ہونگے ۔ آج کی دنیا میں معیشت پر ہی زیادہ تر حالات کا انحصار ہوتا ہے ۔ جہاں معیشت مستحکم ہوتی ہے وہیں عوام کیلئے راحتیں پیدا ہوتی ہیں۔ عوام کی جیبوں میں پیسہ آتا ہے تو ان کیلئے مسائل و مصائب کا سامنا کرنا بھی آسان ہوجاتا ہے ۔ حالانکہ 2022 میں 2020 اور 2021 کی طرح کورونا کی کوئی لہر نہیں تھی اور نہ ہی کسی طرح کے لاک ڈاون کا سامنا کرنا پڑا تھا ۔ معاشی سرگرمیاں بھی بتدریج بحال ہونے لگی ہیں۔ دھیرے دھیرے حالات معمول پر آنے کی امیدیں پیدا ہونے لگی تھیں تاہم اب یہ اندیشے ظاہر کئے جا رہے ہیں کہ آئندہ دو تا تین ماہ کے دوران کورونا کی ایک اور خطرناک لہر کا دنیا کو سامنا کرنا پڑسکتا ہے ۔ اس کے علاوہ یہ اندیشے بھی ظاہر کئے جا رہے ہیں کہ 2023 میں دنیا کے ممالک کی ایک بڑی تعداد کو معاشی انحطاط کا سامنا بھی کرنا پڑسکتا ہے ۔ یہ دونوں ہی اندیشے ایسے ہیں جن کے نتیجہ میں عوام راست متاثر ہوسکتے ہیں۔ کورونا کی لہر اگر پیدا ہوتی ہے تو اس سے عوام کو بچنا مشکل ہوگا ۔ حد درجہ احتیاط لازمی ہوگی ۔ کئی طرح کے اقدامات کرنے ہونگے ۔ خود کورونا کی لہر کا معیشت پر بھی گہرا اثر ہوسکتا ہے ۔ دو لہروں میں یہ بات واضح بھی ہوچکی ہے ۔ ان اندیشوں سے ساری دنیا کے عوام پہلے ہی پریشان ہیں ۔ وہ خود کئی طرح کے خدشات رکھتے ہیں۔ ایسے میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی جانب سے واضح کیا گیا ہے کہ نئے سال میں معاشی مسائل سر ابھار سکتے ہیں اور دنیا کا ایک بڑا حصہ معاشی انحطاط کا شکار ہوسکتا ہے ۔ یہ اندیشے در اصل عام آدمی کیلئے زیادہ خطرہ ثابت ہوتے ہیں کیونکہ دنیا بھر میں پیش آنے والے حالات کا راست اثر عام آدمی پر ہی پڑتا ہے ۔حکومتیں حالانکہ عوام کو راحت دینے کے نام پر کئی اقدامات کرتی ہیں لیکن اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ حکومتوں کے اقدامات کا ملک کے عوام کو کوئی خاص فائدہ نہیں پہونچ پاتا ۔
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ نے نئے سال میں معاشی انحطاط کی جو وجوہات بتائی ہیں ان میں روس اور یوکرین کے درمیان جاری جنگ اصل وجہ ہے ۔ دونوںملکوں کے مابین گذشتہ دس ماہ سے جنگ چل رہی ہے ۔ اس کے اثرات ساری دنیا پر مرتب ہو رہے ہیں۔ کئی ممالک کیلئے بجلی اور فیول کا بحران پیدا ہوگیا ہے تو کئی ممالک ایسے ہیں جنہیں فیول اضافی قیمتوں پر حاصل کرنا پڑ رہا ہے ۔ کئی ممالک کیلئے اناج اور دوسری اشیا کی سربراہی مشکل ہوتی گئی ہے ۔ حالانکہ سپلائی چین کو برقرار رکھنے کے اقدامات کئے جا رہے ہیں لیکن انہیں معمول پر نہیں لایا جاسکا ہے ۔ اس کے علاوہ کہا جا رہا ہے کہ افراط زر کی شرحوں میں بھی کئی ممالک میں اضافہ ہو راہ ہے ۔ اس کے نتیجہ میں عام آدمی پر پہلے ہی بوجھ زیادہ ہوتا جارہا ہے ۔ برطانیہ جیسے ملک میں بھی عوام کو اخراجات زندگی کے بوجھ تلے دبتے دیکھا جا رہا ہے ۔ وہاں کے لوگ بھی بنیادی ضروریات کی تکمیل سے قاصر دکھائی دے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ مختلف بینکوں کی جانب سے شرح سود میں بھی اضافہ کیا جا رہا ہے ۔ہوم لون ہوں یا پھر دوسرے قرضہ جات ہوں ان کی شرح سود میں اضافہ کردیا گیا ہ ۔ اس کے اثرات سے بھی معاشی سرگرمیوں میں مشکلات پیدا ہو رہی ہیں۔ صنعتی پیداوار پر بھی اس کے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ تجارتی اداروں میں ملازمتوں میں تخفیف کرتے ہوئے ملازمین کو برخواست کیا جا رہا ہے ۔ اس کے اثرات بھی ریٹیل اور ہول سیل دونوں ہی مارکٹوں پر مرتب ہونے لگے ہیں۔
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے جو اندیشے ہیں انہیں بے بنیاد نہیں کہا جاسکتا ۔ ہوسکتا ہے کہ کچھ اندازوں میں فرق دکھائی دے لیکن انہیں یکسر مسترد نہیں کیا جاسکتا ۔دنیا بھر کی معیشتوں کیلئے چین میں کورونا وائرس کا پھیلاؤ بھی تشویش کا باعث بنا ہوا ہے ۔ چین سے اس وائرس کے دیگر ممالک کو پھیلنے کے اندیشے بھی ظاہر کئے جا رہے ہیں۔ ان حالات میں تمام ہی ممالک کو فوری طور پر حرکت میں آتے ہوئے احتیاطی اقدامات کرنے چاہئیں۔ انحطاط کے اثرات کو کم سے کم کرنے پر توجہ دینی چاہئے ۔ عوام کو معاشی بوجھ سے بچانے کے ایجنڈہ کو ترجیح دیتے ہوئے اقدامات کئے جانے چاہئیں۔ اسی سے انحطاط کے اثرات کو کم کیا جاسکتا ہے ۔