نریندر مودی ‘ کیا وقت بدل رہا ہے ؟

   

ملک میں 2014 کے لوک سبھا انتخابات نے سارے ماحول کو بدل کر رکھ دیا تھا ۔ جمہوری عمل کے ذریعہ حکومتوں کے انتخاب کی روایت تو برقرار رہی تھی لیکن مسائل بدل گئے تھے ۔ بلکہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ مسائل کی اہمیت کم ہوگئی تھی ۔ شخصیت پرستی کو فروغ ملنے لگا تھا جو گذرتے وقت کے ساتھ گذشتہ 9 برس میں اپنی انتہاء کو پہونچ گیا تھا ۔ یہ تاثر دیا جا رہا تھا کہ ہندوستان میں اگر کچھ ہے تو صرف نریندر مودی ہیں اور کچھ کرسکتے ہیں تو صرف مودی کرسکتے ہیں۔ ملک کی کسی بھی ریاست کے انتخابات ہوں بی جے پی نے نریندر مودی کی شخصیت پر لڑے تھے اور کامیابی حاصل کی گئی تھی ۔ وقفہ وقفہ سے مختلف گوشوں سے مودی کی مدح سرائی اور شخصیت پرستی کو فروغ دیا جانے لگا تھا ۔ بی جے پی کو یہ احساس پختہ ہونے لگا تھا کہ نریندر مودی کے ہوتے ہوئے اسے انتخابی عمل میں کوئی بھی شکست سے دوچار نہیں کرسکتا ۔ ملک کا جو زر خرید میڈیا ہے اور تلوے چاٹنے والے اینکرس ہیں وہ بھی اپنے شوز پر یہ سوال کرتے نہیں تھکتے تھے کہ مودی نہیں تو کون ؟ ۔ یہ تاثر عام کرنے کی حتی المقدور کوشش کی جاتی رہی کہ صرف مودی ہیں اور کچھ نہیں۔ ملک کی قیادت کی بات آئے تو نریندر مودی کا کوئی متبادل نہ ہونے کا دعوی کیا جانے لگا تھا ۔ ملک کی جتنی ریاستوں میں بی جے پی کی حکومت ہے وہاں یہ اقتدار صرف نریندر مودی کی شخصیت کی تشہیر اور پروپگنڈہ کے ذریعہ اقتدار حاصل کیا گیا تھا ۔ جو ریاستی اور وہاں کے عوام کے مسائل تھے انہیں کہیں پس پشت ڈال دیا گیا تھا ۔ اگر مسائل کا کبھی ذکر آتا بھی تو سرسری سا ہوتا ۔ خود نریندر مودی بھی 2014 کے بعد سے شائد اب تک خود کو انتخابی موڈ ہی میں سمجھتے رہے تھے ۔ کسی بھی ریاست میں بی جے پی نے چیف منسٹر کے چہرہ کو پیش کرتے ہوئے مقابلہ نہیں کیا تھا ۔ جہاں کہیں بی جے پی کے حالات کمزور نظر آتے یہ اپیل کی جاتی کہ وزیر اعظم کی شخصیت پر ووٹ دئے جائیں۔ وزیر اعظم اس ریاست کا خیال رکھیں گے ۔ ڈبل انجن کی سرکار کا نعرہ دیا جاتا اور عوام کے ووٹ حاصل کئے جاتے رہے تھے ۔ تاہم حالیہ کرناٹک اسمبلی انتخابات نے اس ایسا لگتا ہے کہ اس بھرم کو توڑ دیا ہے ۔
کرناٹک میں کانگریس نے منظم حکمت عملی کے تحت مقامی مسائل کی بنیاد پر الیکشن لڑا تھا ۔ کانگریس کی صفوں میں اتحاد پیدا کرلیا گیا تھا ۔ عوام کے سامنے تمام قائدین متحدہ نظر آرہے تھے اور عوام کے مسائل کی بات کی گئی ۔ عوام کو راحت پہونچانے کے وعدے کئے گئے تھے ۔ ان کی زندگیوں میں بہتری لانے کا عہد کیا گیا تھا اور جب راست عوام کے فائدے کی بات آئی تو نریندر مودی کی شخصیت کا بھرم بھی دھرا کا دھرا رہ گیا ۔ جب کرناٹک کی انتخابی مہم کے ابتدائی مرحلہ میں بی جے پی کی کمزوری کا اظہار ہوا تو بی جے پی اس اطمینان میں تھی کہ نریندر مودی دہلی سے آئیں گے ۔ چند ریلیاں اور جلسے کریں گے اور انتخابی نتائج کا رخ بدل جائے گا ۔ پروگرام کے مطابق نریندر مودی نے کرناٹک میں لگاتار دورے کئے ۔ کئے جلسے کئے ۔ کئی ریالیاں نکالیں۔ ایک طویل روڈ شو کیا گیا ۔ بی جے پی کے حلقوں میں مسرت کی لہر دوڑ گئی کہ اب نتائج اس کے حق میں ہونگے ۔ تاہم جب 13 مئی کو نتائج کا اعلان ہوا تو یہ بھرم ختم ہوگیا اورنریندرمودی کی شخصیت اور ان کی مقبولیت پر عوام نے اپنے مسائل اور پریشانیوں کو ترجیح دی اورا ن امیدواروں کے حق میں ووٹ کا استعمال کیا جو ان کے مسائل حل کرنے کا عہد کرتے دکھائی دئے تھے ۔ اس حقیقت کا اب بی جے پی کی سرپرست آر ایس ایس کو بھی اعتراف ہونے لگا ہے اور اس نے بھی یہ کہنا شروع کردیا ہے کہ مودی کی شخصیت اور ہندوتوا کا نظریہ ہی انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کیلئے کافی نہیں ہوسکتے ۔
آر ایس ایس نے اپنے تجزئے میں کہا ہے کہ مقامی سطح پر مستحکم اور طاقتور قیادت اور موثر کارکردگی عوام کی تائید حاصل کرنے کیلئے کافی ہے ۔ اس طرح بی جے پی کو ایک بار پھر بنیادوں پر توجہ دینے کا مشورہ دیا گیا ہے ۔ اس حقیقت کا اعتراف ہونے لگا ہے کہ شخصیت پرستی ایک حد تک کام کرسکتی ہے اور اس کے بعد پھر کارکردگی پر ہی بھروسہ کیا جاسکتا ہے ۔ بی جے پی کے پاس جو دو انتخابی ہتھیار نریندر مودی اورہندوتوا تھے جو اب اپنا اثر کھونے لگے ہیں۔ بی جے پی کو عوامی مسائل پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ شخصیت پرستی اور ہندوتوا پروپگنڈہ کے سہارے پر انتخابات جیتنا اب مشکل ہوگیا ہے ۔ بی جے پی کو بھی اس حقیقت کو تسلیم کرنے کی ضرورت ہے ۔