نسیمہ تراب الحسن کی اِنشائیہ نگاری ’’رنگ برنگی یہ دنیا‘‘ کی روشنی میں

   

بی بی رضا خاتون
(اسسٹنٹ پروفیسر مولانا آزاد یونیورسٹی)
نسیمہ تراب الحسن حیدرآباد کے گلستان ادب کی وہ نسیم بہاراں ہیں جو اپنے نکہت قلم سے ذہن و دل کو معطر کردیتی ہیں۔ ان کے مزاج کی شائستگی و شگفتگی جب الفاظ کے پیکر میں ڈھل کر صفحہ قرطاس پر نمودار ہوتی ہے تو زندگی کے ہر رنگ کو (تلخ و شیریں دونوں) خوش نما اور قابل قبول بنادیتی ہے۔ ان کے مضامین سیر گلستاں کی لطافتوں کا سا احساس دلاتی ہیں۔
رنگ برنگی دُنیا کے موضوعات کا کینوس زندگی کی طرح وسیع اور ہمہ گیر ہے۔ ان مضامین میں زندگی کے مختلف رنگ ابھرتے اور نکھرتے چلے جاتے ہیں اور ان رنگوں میں فکر و اخلاص کے باہمی امتزاج سے ایک سے ایک خوبصورت تصویریں بنتی چلی جاتی ہیں۔ یہ مضامین مصنفہ نے اپنے تجربات کی روشنی میں لکھے ہیں۔ صاف، شفاف تصنع سے پاک یہ مضامین ان کی زندگی کے عمیق مطالعے کا حاصل ہیں۔ Samuel Johrson نے لکھا تھا کہ Books without the knowledge of life are useless یہ مضامین زندگی کو سمجھنے کے بعد لکھے گئے ہیں اور زندگی کو سمجھنے کی دعوت دیتے ہیں۔ آپ زندگی اور فلسفے کو باتوں باتوں میں اس سادگی سے بیان کرتی ہوئی گزر جاتی ہیں کہ بات دل سے نکلی اور دل تک پہنچ گئی۔ ہم کسی چیز کو فلسفہ اس وقت تک نہیں مانتے جب تک وہ ثقتیل اور گنجلک نہ ہو۔ جبکہ فلسفہ کے معنی حکمت و دانائی کی باتیں ہیں۔ نسیمہ تراب الحسن صاحبہ کی تحریریں پڑھ کر میں نے یہ جانا کہ فلسفہ بگھارے (دانائی کا رعب ڈالنا) بغیر بھی فلسفہ بیان کیا جاسکتا ہے۔ میں محترمہ کی سادگی اور اخلاص سے پر دانشوری کو خراج تحسین پیش کرتی ہوں۔
’’رنگ برنگی یہ دنیا‘‘ کے متنوع رنگوں میں ایک خوبصورت رنگ مشرقی نسائیت کا ہے۔ ’’سماج کی ٹیڑھی لکیریں‘‘ اور ’’اگر عورت نہ ہوتی‘‘، جہیزکی لعنت سوئے ہوئے ضمیر کی نشانی‘‘ یہ ایسے مضامین ہیں جو خواتین سے متعلق نہایت حساس اور سنجیدہ موضوعات پر لکھے گئے ہیں۔ سماج کی ٹیڑھی لکیریں میں مصنفہ ان تمام سماجی و معاشرتی برائیوں اور زیادتیوں کا احاطہ کرتی ہیں جن سے ہندوستانی خواتین جوجھ رہی ہیں جن میں جہیز کی مانگ، گھریلو تشدد، دست درازی، صنفی امتیازات، مختلف طرح سے استحصال اور Female Feticide پر گفتگو قارئین کو دعوت فکر دیتی ہیں۔

میں نے اوپر مشرقی نسائیت کی اصطلاح استعمال کی ہے۔ اس کا جواز یہ ہے کہ مغرب میں تانیث کے تصور نے جہاں خواتین کو ان کے حقوق اور پہچان دلانے میں اہم رول ادا کیا، وہیں عدم اعتدال اور انتہا پسندی کے سبب نقصان دہ اور گمراہ کن بھی ثابت ہورہا ہے جیسےRadical Feminism کہا جاتا ہے جبکہ ہندوستانی خواتین قلم کاروں کے یہاں جو رجحان ملتا ہے، وہ اپنے وجود، تشخص، حقوق اور مساوات کی بات کرتی ہیں، بغیر مدمقابل کی اہمیت کو روکئے، یہ مشرقی نسائیت ہے جہاں وہ اپنے حقوق کے لئے آواز اٹھا رہی ہے، وہیں اپنے فرائض سے بھی آگاہ اور ان پر عمل پیرا بھی ہے۔
رنگ برنگی یہ دنیا کا پہلا انشائیہ یادیں، انسانی زندگی میں یادوں کی اہمیت سے روشناس کراتا ہے۔ اس انشائیہ کو پڑھ کر مجھے دکنی شاعر سلیمان خطیب کی نظم ’’یاد‘‘ کی یاد آگئی جس کے کچھ بند ملاحظہ کریئے:
یاد بولے تو تکیے میں گجرے کی باس
جیسے کیوڑے کا کانٹا کلیجے کے پاس
یاد بولے تو بچپن میں چھوڑے سو گاؤں
جیسے پنگھٹ کے پانی میں رادھا کی چاؤں
یاد بولے تو خالی دوا نے کا خواب
ایک بچے کا جیسے ادھورا جواب
یاد بولے تو پلکاں پو آنسو کی لوٹ
کالے بادل پو چاندی کی چمکیلی گوٹ
یاد رونے سو انکھیاں میں گوری کا روپ
جیسے پڑتے سو پانی میں ہلکی سی دھوپ
یاد بولے تو آنسو کی ٹوٹی لڑی
گھپ اندھارے میں چھوٹی ہوئی پھلجھڑی
یاد بولے تو جو ہی کی کھلتی کلی
سوتے بالک کے ہونٹاں پو جیسے ہنسی
یاد بولے تو ریتی پو ہلکی لکیر
جیسے بارے میں اُڑتی ہے ہلکی عبیر
یاد بولے تو چلمن کے پیچھے ہنسی
دور جنگل میں جیسے کوئی روشنی
یاد بولے تو بچپن کی بھولی نراس
لال اودی دھنک کو پکڑنے کی آس
یاد بولے تو انکھیاں جھکانے کا نام
ایک نقشہ بناکر مٹانے کا نام
یاد بولے تو دل میں چھپانے کی بات
چپ ذرا سوچ کر مسکرانے کی بات
’’میں اور میرا میٹرک کا امتحان‘‘ میں مصنفہ نے اپنی آپ بیتی کے ذریعہ Exam Phobia سے لڑنے اور انسانی ذہن کی بہتر کارکردگی کیلئے تفریح کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔
انتظار میں مزہ بھی ہے اور کرب بھی۔ انتظار کی گھڑیاں کبھی کسی کے ملنے کی اشتیاق اور خوشی کی شدت کو بڑھاتی ہیں تو کسی کی آنکھیں انتظار کرتے کرتے پتھر اُجاتی ہیں۔ ملازمت اور بہتر معیار زندگی کی خواہش میں بیرون ملک مقیم لوگوں کے ضعیفی میں اکیلے پن کے عذاب میں مبتلا والدین کی منتظر آنکھیں ان کے کرب کو بیان کرتی ہیں۔

خطوط نویسی میں مصنفہ نے اُردو میں خطوط نگاری پر سیرحاصل گفتگو کی ہے۔ خطوط صرف ترسیل کا ذریعہ نہیں بلکہ ایک تہذیب کا نام ہے۔ سائنسی علوم میں ترقی نے انسانی زندگی میں انقلابی تبدیلیاں پیدا کردی ہیں، جہاں اس کے بہت فوائد ہیں، وہیں کچھ نقصانات بھی ہیں، بہت سارے نقصانات میں سے ایک نقصان خطوط نگاری کے فن کو پہنچ رہا ہے بلکہ پہنچ چکا ہے۔ E-mail، SMS اور واٹس ایپ کی سونامی میں خطوط نگاری کو خطرے کے زون میں ڈال دیا گیا ہے۔
تیشہ زن میں مصنفہ نے ازدواجی زندگی کی نوک جھونک کو پرمزاح انداز میں پیش کیا ہے اور یہ بتایا ہے کہ ذہنی آہنگی اور Compatibility اگر نہ ہو تو کیسے مرد و زن ایک دوسرے سے بدظن ہوجاتے ہیں۔
’’مجھے یاد آرہا ہے کہ ایک دوست کی شادی محبت سے ہوئی تھی۔ کچھ عرصے تک تم چاند سی محبوبہ ہو‘‘ اور چودھویں کا چاند ہو یا آفتاب ہو، کے گانے گھر کی فضاء میں گونجتے رہے۔ ایک دن شوہر کوئی غمگین گانا گارہا تھا ، بیوی طنز کے ساتھ بولی : ’’اب تم مجھ سے بیزار ہوگئے‘‘، معمولی سی بات طول پکڑ گئی۔
مہنگائی سے سب سے زیادہ خواتین متاثر ہوتی ہیں اور ہمیشہ گھر کے بجٹ کا توازن بنائے رکھنے کیلئے فکر مند رہتی ہیں۔ مصنفہ بچت کی ایک دلچسپ اور پُرمزاح ترکیب بتاتے ہوئے لکھتی ہیں:
’’دوسری ترکیب یہ ہے کہ ہم ملنسار بن جائیں۔ آج یہاں کل وہاں ملنے ملانے چلے جانے سے اپنا خرچہ کافی بچ سکتا ہے کبھی چائے کے وقت کا لحاظ رکھا جائے، کبھی کھانے کا، البتہ اس کے لئے اپنی طبیعت میں تکلف کا مادہ بالکل باقی نہ رہنے دیا جائے۔ ساتھ ہی خیال رہے کہ اگر میزبان آپ سے چائے یا کھانے کے لئے پوچھے تو فوراً رضامندی کا اظہار کردیا جائے کیوں کہ آج کی مہنگائی نے میزبان کو بھی اصرار نہ کرنے کا گُر سکھا دیا ہے‘‘۔
دیکھ تیرے سنسار کی حالت کیا ہوگئی بھگوان … میں مصنفہ اس بات پر تشویش کا اظہار کرتی ہیں کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی نے بچوں سے معصومیت چھین لی ہے۔ ’’من پسند شوہر‘‘ میں خواتین کے ٹپکل انداز میں شوہروں کی شکوہ شکایت کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ تقریباً ہر پیشہ یا ملازمت سے وابستہ مرد کی بیوی اس کے پیشہ یا ملازمت سے نالاں نظر آتی ہے۔
اولاد کی پرورش میں مساوات کا دھیان بے حد اہم موضوع ہے، اس پر لکھا گیا مضمون مصنفہ کے مشاہدات و تجربات کا نچوڑ ہے۔ لڑکیوں کی تعلیم و تربیت اور پرورش میں لڑکوں کے لئے جانب داری کا رویہ دونوں کی ذہنی نشوونما میں شامل رہ کر انہیں متاثر کرتا ہے۔ جب گھر میں ماں ہی دونوں کے درمیان فرق روا رکھے تو بچے اسی ذہنیت کے ساتھ بڑے ہوتے ہیں اور لڑکی سے یہ کہا جائے کہ تم لڑکی ہو یہ نہیں کرسکتی، تمہیں یہ نہیں کرنا چاہئے۔ تو وہ بھی اسی احساس کے ساتھ بڑی ہوتی ہے۔ اس لئے والدین کو بچوں کو ایک نظر سے دیکھنا چاہئے کیونکہ اکثر یہ فرق اور بھید بھاؤ گھر کی فضا سے ذہنوں میں شامل ہوکر پختگی اختیار کرلیتا ہے۔
ڈھولک کے گیتوں کی روایت، ڈھولک کے گیت نسائی تہذیب کی وہ خوبصورت روایت ہے جو خواتین کی زندگی کے مختلف مراحل پر ان کی دلجوئی کرتی ہے۔ ان کی خوشی کے اظہار کا ذریعہ بنتی ہے لیکن موجودہ دور میں ذرائع تفریح کی بھرمار میں یہ روایت دَم توڑ رہی ہے۔
ہمارے جسمانی اعضاء کی بغاوت تمثیلی انداز میں انسانی جسم پر وقت کی جبریت کا بیان ہے جو مزاح سے بھرپور ہے۔ کیا یہ سچ نہیں، آج کے سلگتے موضوعات پر لکھا گیا مضمون ہے۔ اس میں مصنفہ خواتین پر ہورہے جرائم کو ختم کرنے کے لئے قانون نافذ کرنے کے ساتھ ساتھ مرد کی ذہنیت کو بدلنے کی ضرورت پر زور دیتی ہیں۔ جب تک سوچ اور فکر میں تبدیلی نہیں آئے گی، اس وقت تک سماج میں تبدیلی نہیں آسکتی۔ اس مضمون میں زبردست نسائی احتجاج کی گونج سنائی دیتی ہے۔

آصف جاہی دور حکومت کی عیدین اور تہوار پر لکھا گیا مضمون میر عثمان علی خان کی انسان دوستی، مذہبی رواداری دکن کے علاقے کی خوشحالی اور پرامن زندگی کی داستان بیان کرتا ہے۔
’’رنگ برنگی یہ دنیا‘‘ یہ انشائیہ نثری آدمی نامہ ہے اور کہا جاتا ہے کہ چیزیں اپنی ضد سے پہچانی جاتی ہیں۔ دن، رات کی وجہ سے روشن نظر آتا ہے، خوشی، غم کے بعد راحت فزا ہوتی ہے، اسی طرح انسان بھی مختلف الطبع واقع ہوئے ہیں۔
کوئی لوٹا دے مجھے بیتے ہوئے دن میں مصنفہ Nostalgic ہوجاتی ہیں۔ ملک کے اجتماعی ماضی کی خوشگوار یادیں، مستقبل کی غیریقینی کیفیت اور حال کی بدحالی انہیں یہ کہنے پر مجبور کرتی ہے کہ بقول علامہ اقبالؔ
ہاں دکھا دے ائے تصور پھر وہ صبح و شام تو
دوڑ پیچھے کی طرف ائے گردش ایام تو
مصنفہ رجعت پسند نہیں، وہ ماضی کی رواداری اور احترام انسانیت اور اخلاقی قدروں کی روایت کی پاسدار ہیں اور موجودہ دور میں ان اقدار کے احیاء کی متمنی ہیں۔
نسیمہ تراب الحسن صاحبہ نے خواتین میں شعور بیدار کرنے اور انہیں بااختیار بنانے کے لئے مختلف موضوعات پر مضامین لکھے ہیں۔ عورت کو معاشی طور پر خودمختار بننے اور معاشی طور پر گھر کا سہارا بننے کی طرف راغب کرتی ہیں۔ وقت کا صحیح استعمال بہت ضروری ہے۔ اگر خواتین ملازمت نہ کرنا چاہیں تو گھر بیٹھے اپنے ہنر کے بل بوتے پر کما سکتی ہیں۔ کشیدہ کاری، سلائی بنائی، اچار اور پاپڑ اور کھلونے بناکر گھریلو صنعت کے ذریعہ تجارت کرسکتی ہیں۔ مصنفہ لطیف مزاحیہ انداز میں کہتی ہیں۔
’’ہوسکتا ہے آپ کی معاشی زندگی خوشحال ہے اور آپ کو پاپڑ بیلنے کیا چنداں ضرورت نہیں‘‘۔
مصنفہ کی اپنی زندگی سے پیش کردہ مثالیں مشعل راہ کا کام کرتی ہیں۔ وہ خواتین کو اپنی زندگی کو بامقصد بنانے اور اپنی ذات کو انسانوں کے لئے مفید و کارآمد بنانے جیسی اعلیٰ و ارفع سوچ کی طرف مائل کرتی ہیں۔
سات سمندر پار ایک جزیرہ نیوزی لینڈ کے سفر کی روداد ہے جو سفر نامے کا لطف عطا کرتی ہے اور مضمون کے اختتام پر یہ احساس ہوتا ہے کہ کاش! محترمہ کچھ دیر اور ہمیں نیوزی لینڈ کے سفر میں اپنا ہم سفر بناتیں۔ انشائیہ نگار کو اگر اپنی زبان پر قدرت حاصل ہے تو ایک پھول کے مضمون کو سو ڈھنگ سے باندھنے کا اعتماد اس کی تحریروں میں نظر آتا ہے۔ ایک ڈائری کیا کیا ہوسکتی ہے، اقتباس ملاحظہ ہو۔
’’ڈائری لکھنے سے آپ کو اپنے آپ کا تجزیہ کرنے کا موقع ملتا ہے۔ بعض باتیں جن کو آپ ایک عمر میں صحیح سمجھتے ہیں، بعد میں وہی باتیں غلط لگتی ہیں، یعینی اپنی غلطیوں، کوتاہیوں، اپنی زیادتیوں، لغزشوں پر پرانی ڈائری دیکھنے سے نظر پڑتی ہے۔ ہم ٹھنڈے دل سے سوچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ ہمیں ایسا کرنا چاہئے تھا یا نہیں ہوسکتا ہے کہ مستقبل میں ہم اس کا ازالہ کریں جس کا مطلب یہ ہے کہ لاشعوری طور پر ڈائری ایک ناصح، ایک رہبر کا کام انجام دیتی ہے‘‘۔
رشتوں کی نازک اور انسان کی زندگی میں رشتوں کے تانے بانے اور ان رشتوں کی اہمیت سے روشناس کراتا ہے نیز ہمیں یہ احساس دلاتا ہے کہ رشتوں کے بغیر انسان کتنا ادھورا اور نامکمل ہوتا ہے۔
ان مضامین کی ایک خوبی ان کا اختصار اور جامعیت ہے۔ اسلوب بیان میں دریا کی سی روانی ہے۔ ہر فن کار اپنے فن کے ذریعہ اپنے وجدات اور ادراک کا اظہار کرنا چاہتا ہے جس کے لئے وہ مختلف پیرائے اظہار اپناتا ہے۔ محترمہ نسیمہ تراب الحسن صاحبہ نے کبھی تمثیلی، کبھی تجسیمی تو کبھی استعاراتی و علامتی انداز میں اپنے احساسات و جذبات اور افکار و خیالات کو لفظوں کے حسین پیکر میں ڈھال کر ان انشائیوں کے روپ میں پیش کیا ہے۔٭