نفرت انگیز پوسٹس ‘ پولیس کا دوہرا معیار

   

تالا پڑا ہوا ہے بس اپنی زبان پر!
جتنے ہیں سارے چرب زباں سب مزے میں ہیں
ملک بھر میں سوشل میڈیا کے ذریعہ نفرت پھیلانے اور پھر اس معاملے میں پولیس کے دوہرے معیارات عام بات ہوتے جا رہے ہیں۔ کچھ گوشوں کی جانب سے معمولی سے اظہار خیال کو ایک بتنگڑ بنا کر پیش کیا جاتا ہے ۔ ان کے خلاف مقدمات درج کئے جاتے ہیں ۔ انہیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھیجا جاتا ہے ۔ ان کی ضمانتیں تک ہونے نہیں دی جاتی ہیں ۔ انہیں غداری اور دوسرے سنگین مقدمات میں ماخوذ کیا جاتا ہے جبکہ دوسری جانب کچھ گوشوں کی جانب سے انتہائی اشتعال انگیز مواد سوشل میڈیا پر پھیلا یا جاتا ہے ۔ سوشل میڈیا کے ذریعہ جھوٹ پھیلائی جاتی ہے ۔ سماج میں نفرت پیدا کی جاتی ہے اس کے باوجود ایسے عناصر کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاتی ۔ ان کے خلاف کارروائی کرنے اور کیفر کردار تک پہونچانے کی بجائے ان کو بچانے کی ہر ممکنہ کوششیں کی جاتی ہیں۔ ان کے خلاف اگر بحالت مجبوری کوئی مقدمہ درج بھی کیا جاتا ہے تو انتہائی جھول رکھی جاتی ہے تاکہ عدالتوں میں انہیں سزاوں سے بچایا جاسکے ۔ ملک کی تقریبا کئی ریاستوں میں پولیس کے دوہرے معیارات عام ہوگئے ہیں۔ پولیس بھی ایسا لگتا ہے کہ سیاسی اشاروں پر کام کرنے کیلئے مجبور کردی گئی ہے یا پھر پولیس نے بھی حالات کو دیکھتے ہوئے اپنے کام کاج کا انداز بدل لیا ہے ۔ آج دہلی یونیورسٹی کے ایک پروفیسر رتن لال کو گیان واپی مسجد سے متعلق معاملہ میں سوشل میڈیا پر کوئی پوسٹ کرنے کے الزام میں گرفتار کرلیا گیا تھا ۔ صبح کی اولین ساعتوں میں پولیس وہاں پہونچ گئی اور اس نے انہیں گرفتار کرلیا ۔ ان پر سماج کے مختلف طبقات کے مابین منافرت پھیلانے اور مذہبی جذبات کو ٹھیس پہونچانے کے الزام میں مقدمہ درج کیا گیا تھا ۔ عدالت نے تاہم پروفیسر رتن لال کی ضمانت منظور کرتے ہوئے واضح کردیا کہ کسی ایک فرد واحد کے جذبات مجروح ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ ساری برادری کے جذبات مجروح ہوئے ہیں۔ عدالت نے یہ بھی واضح کردیا کہ اس طرح کی جو درخواستیں داخل کی جائیں گی ان تمام کی اسی تناظر میں سماعت کی جانی چاہئے ۔ یہ پولیس کیلئے ایک طرح سے ہدایت بھی کہی جاسکتی ہے ۔
پروفیسر رتن لال نے گیان واپی مسجد کے تعلق سے جو تبصرہ سوشل میڈیا پر پوسٹ کیا تھا اس پر ان کے فرزند کو جان سے مارنے کی دھمکیاں بھی دی گئی تھیں ۔ پولیس نے دھمکیاں دینے والوں کے خلاف نہ کوئی کارروائی کی ہے اور نہ کسی مستعدی کا مظاہرہ کیا ہے ۔ پولیس کے مطابق اگر رتن لال کا پوسٹ غیر قانونی بھی تھا اور اگر ان کے خلاف مقدمہ درج بھی ہونا تھا تو مقدمہ درج کیا گیا اور عدالت نے قانون کے مطابق رولنگ دی ہے ۔ جس طرح رتن لال کے خلاف مقدمہ درج کرنا ضروری تھا اسی طرح ان کے فرزند کو جان سے مارنے کی دھمکیاں دینے والوں کے خلاف بھی کارروائی ہونی چاہئے ۔ یہ سیدھے قتل کی دھمکی ہے اور رتن لال کے سوشل میڈیا پوسٹ سے ان کے فرزند کا راست یا بالواسطہ کوئی تعلق نہیں تھا ۔ اس معاملے میں دہلی پولیس نے کوئی کارروائی نہیں کی اور نہ ہی اس طرح کی دھمکیاں دینے والوں کے خلاف کوئی مقدمہ درج کیا گیا ۔ نامعلوم افراد کے خلاف ہی صحیح لیکن کوئی مقدمہ درج نہیں کیا گیا ۔ یہ پولیس کا دوہرا معیار ہی ہے ۔ ایک طرف معمولی سے پوسٹ پر تاریخ کے کسی پروفیسر کے خلاف مقدمہ درج کرنے میں پولیس مستعدی دکھاتی ہے تو دوسری طرف باضابطہ قتل کی دھمکی دینے والوں کو نظر انداز کردیتی ہے ۔ یہ در اصل دھمکیاں دینے والے غنڈہ عناصر کی بالواسطہ مدد ہی ہے ۔ اس طرح کے پولیس عہدیداروں کے خلاف خود مقدمات درج ہونے چاہئیں اور ان کی کارروائیوں اور کوتاہیوں پر سوال کئے جانے چاہئیں۔
ملک میں جہاں تک پولیس کا سوال ہے تو ایک سے زائد مرتبہ دہلی کی پولیس اور دوسری ریاستوں کی پولیس کو عدالتوں کی پھٹکار کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔ عدالتوں نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ حکومتیں آتی اورجاتی رہتی ہیں۔ پولیس کو سیاسی اشاروں پر کام نہیں کرنا چاہئے ۔ تاہم اب پولیس برسر اقتدار جماعتوںاور حکومت کی غلام ہوگئی ہے ۔ نفاذ قانون کی ایجنسیاں قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کے تعلق سے مجرمانہ خاموشی کی مرتکب ہوتی ہیں تو حکومت کے مخالفین کے خلاف غیر ضروری مستعدی کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ پولیس کو اس طرح کے دوہرے معیارات سے گریز کرنا چاہئے ۔ قانون کے مطابق اپنے فرائض انجام دینے میں کسی دباؤ کو قبول نہیں کرنا چاہئے ۔ پولیس کے دوہرے معیارات کی وجہ سے ہی غیرسماجی عناصر اور غنڈہ عناصر کی حوصلہ افزائی ہو رہی ہے ۔
فیول قیمتوں میں راحت
مرکزی حکومت نے بالآخر پٹرول اور ڈیزل قیمتوں پر سنٹرل اکسائز ڈیوٹی میں کمی کا اعلان کردیا ہے جس کے نتیجہ میں ملک بھر میں پٹرول کی قیمت میں فی لیٹر 9.5 روپئے اور ڈیزل کی قیمت میں فی لیٹر 7 روپئے کی کمی آئے گی ۔ اسی طرح مرکزی حکومت نے اجولا اسکیم کے تحت پکوان گیس صارفین کو سالانہ 12 سلینڈرس پر فی سلینڈر 200 روپئے سبسڈی فراہم کرنے کا بھی اعلان کیا ہے ۔ ملک بھر میں گذشتہ ہفتوں سے مہنگائی نے عروج پالیا ہے ۔ تمام اشیائے ضروریہ کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگی ہیں۔ عام آدمی کیلئے ضروریات زندگی کی تکمیل تک انتہائی مشکلات کا شکار ہوگئی تھی ۔ فیول کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ کرتے ہوئے کئی بار عوام پر بوجھ عائد کیا گیا تھا ۔ اس کے اثر سے دوسری اشیا کی قیمتیں بھی بڑھ گئیں اور اس کا بوجھ بھی عوام پر ہی منتقل کردیا گیا تھا ۔ کئی گوشوں سے حکومت سے اصرار کیا جا رہا تھا کہ فیول قیمتوں میں کمی کرنے کیلئے مرکزی محاصل میں کمی کی جائے ۔ مرکز نے بالآخر آج فیول قیمتوں پر اکسائز ڈیوٹی میں کمی کا اعلان کرتے ہوئے عوام کو قدرے راحت پہونچانے کی کوشش کی ہے ۔ ریاستی حکومتوں کو بھی اس معاملے میں آگے آتے ہوئے کچھ محاصل کم کرنے چاہئیں تاکہ عوام کو مزید راحت مل سکے ۔ مرکز کو مستقبل قریب میں قیمتوں میں اضافہ سے گریز کرنا چاہئے ۔