نمائش سانحہ ‘ متاثرین کی مدد ضروری

   

حیدرآباد کی صنعتی نمائش میں چہارشنبہ کی شب جو سانحہ پیش آیا وہ کسی قیامت صغری سے کم نہیں تھا ۔ معمولی شارٹ سرکٹ سے شروع ہوئی آگ نے دیکھتے ہی دیکھتے سینکڑوں دوکانوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور انہیں خاکستر کردیا ۔ صد شکر اس بات کا ہے کہ کوئی جانی نقصان نہیں ہوا لیکن جو مالی نقصان ہوا ہے وہ بھی کم نہیں یہ اور خاص طور پر بیرونی ریاستوں سے آنے والے تاجرین پلک جھپکتے میں اپنے قیمتی سرمایہ سے محروم ہوگئے ۔ ان کی آنکھوںکے سامنے ان کا مال خاکستر ہوگیا اور وہ بے یار و مدد گار ہوگئے ۔ اب ان کے پاس نہ پہننے کیلئے کپڑے بچے ہیں نہ ہی کھانے کیلئے کچھ دستیاب ہے ۔ یہ ساری صورتحال ایک حادثہ کا نتیجہ ہے لیکن یہ حادثہ بھی نمائش سوسائیٹی کی غفلت کی وجہ سے پیش آیا ہے اور سوسائیٹی کو اس کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے متاثرین کی کھل کر مدد کرنی چاہئے ۔ حکومت تلنگانہ کو بھی اس معاملہ میں متاثرین کی حتٰی الامکان مدد کرنی چاہئے ۔ صرف زبانی تسلی یا دلاسہ سے کام نہیں چلے گا ۔ حکومت کے کچھ نمائندوں یا اعلی عہدیداروں کے دوروں سے تاجرین کے نقصان کی تلافی نہیں ہوسکتی ۔ انہیں مالی مدد پہونچاتے ہوئے ان کے حوصلے بڑھانے کی ضرورت ہے ۔ جو لوگ دیکھتے دیکھتے بے یار و مدد گار اور محتاج ہوگئے ہیں انہیں دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کیلئے نمائش سوسائیٹی اور حکومت تلنگانہ دونوں کو فراخدلی کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے ۔

ویسے تو حیدرآباد کی صنعتی نمائش سارے ہندوستان میںشہرت رکھتی ہے ۔ عالمی سطح پر اس کا تذکرہ ہوتا ہے لیکن جہاں تک انتظامات کی بات ہے یہ انتہائی لا پرواہی کے ساتھ کئے جاتے ہیں۔ ساری توجہ صرف زیادہ سے زیادہ تعداد میں اسٹالس قائم کرتے ہوئے کروڑہاروپئے جمع کرنے پر مرکوز کی جاتی ہے ۔ اس کے علاوہ داخلہ ٹکٹس کی قیمت میں ہر سال اضافہ کرتے ہوئے الگ سے دولت کمائی جاتی ہے ۔ اس دولت کا کچھ حصہ اگر نمائش آنے والے شائقین کی سلامتی اور تحفظ پر خرچ کی جاتی اور پوری ذمہ داری کے ساتھ انتظامات کئے جاتے تو کل شب پیش آئے سانحہ کو ٹالا جاسکتا تھا ۔ خود اسٹال مالکین اور وہاں موجود شائقین واضح طور پر کہہ رہے ہیں ایسا لگ رہا تھا کہ نمائش میںجو فائر انجن اور آتش فرو عملہ تھا وہ بھی محض نمائشی تھا ۔ فائر انجن میں نہ پانی تھا اور نہ جو عملہ اس کا ذمہ دار تھا وہ پائپ کا نوذل تک کھولنے کی اہلیت نہیںرکھتا تھا ۔ یہ مجرمانہ غفلت ہے ۔ یہ نمائش کو آنے والے شائقین کی زندگیوں سے کھلواڑ ہے ۔ اس لا پرواہی کی ذمہ داری راست نمائش سوسائیٹی پر عائد ہوتی ہے اور متعلقہ سرکاری محکمہ پر عائد ہوتی ہے ۔وزیر داخلہ اسٹال مالکین اور وہاں موجود شائقین کی زبانی حقائق جان لیتے تو اچھا تھا۔ فائر سروسیس محکمہ کی نا اہلی اور نمائش سوسائیٹی کی غفلت نے لاکھوں کروڑوں کا کاروبار کرنے والوں کو چند لمحوں میں محتاج کردیا ہے ۔ خاطیوں کا پتہ چلاکر انہیں ذمہ دار قرار دینے کی ضرورت ہے ۔

حکومت تلنگانہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اسٹال مالکین کے نقصانات کی مکمل پابجائی کرے ۔ دوسری ریاستوں سے آنے والے تاجروں اور مزدوروں کو بے یار و مدد گار نہ چھوڑے ۔ صرف زبانی ہمدردی کی بجائے عملی اقدامات کئے جائیں۔ سرکاری امور کی تکمیل کے بہانے سے انہیں مزید ہراساں نہ کیا جائے ۔ حقیقت پسندانہ اور فراخدلانہ کام کرتے ہوئے نقصانات کا تخمینہ کرے اور مکمل نقصان کی پابجائی کی جائے ۔ سوسائیٹی کو اس حادثہ کا ذمہ دار قرار دیا جائے ۔ محکمہ فائر سروسیس کی غفلت کا حساب لیا جائے ۔ مستقبل میں نمائش کے تعلق سے واضح پالیسی تیار کی جائے ۔ اسٹالس کی تعداد کا تعین کیا جائے نہ کہ من مانی تعداد میں چھوٹی چھوٹی جگہوں پر اسٹالس الاٹ کی جائیں۔ اس بات کا خاص خیال رکھا جائے کہ مستقبل میں بھی کسی امکانی حادثہ کی صورت میں جان و مال کی حفاظت کا معقول انتظام ہے ۔ ایسا کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے ۔ محض زبانی تسلی اور دلاسہ سے کام نہ لیتے ہوئے حقیقی معنوں میں ان کی مدد کی جائے ۔ کسی جانبداری کے بغیر تحقیقات کرتے ہوئے حادثہ کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی جائے ۔