وبائی امراض کی روک تھام میںناکامی

   

ہو نیتوں میں کھوٹ تو ممکن نہیں علاج
ہو گر خلوص دل میں شفا دسترس میں ہے
وبائی امراض کی روک تھام میںناکامی
تلنگانہ اور خاص طور پر حیدرآباد میں وبائی امراض نے عوام کا جینا محال کردیا ہے ۔ بعض گوشوں کی رائے کے مطابق ایک طرح سے ہیلت ایمرجنسی نافذ کرنے جیسی صورتحال پیدا ہوگئی ہے تاہم حکومت کی جانب سے ان وبائی امراض کی روک تھام کیلئے اور عوام کی صحت کے تحفظ کیلئے اقدامات اس حد تک نہیں کئے جا رہے ہیں جتنے اسے کرنے کی ضرورت ہے ۔ حکومت کی جانب سے سرکاری دواخانوں کو کچھ احکام جاری کرتے ہوئے خاموشی اختیار کی جا رہی ہے لیکن ایسا نہیں ہونا چاہئے ۔ حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کو امراض کی روک تھام کیلئے پاک صاف ماحول فراہم کرے ۔ سرکاری دواخانوں میں علاج اور طبی معائنوں کی سہولیات کا اہتمام کیا جائے ۔ ڈاکٹرس کا انتظام کیا جائے ۔ آب و ہوا کو گندگی سے پاک کرنے اور آلودگی کا خاتمہ کرنے کیلئے اقدامات کئے جائیں۔ خود عوام میں بھی اس تعلق سے شعور بیدار کیا جائے اور عوام کو امراض سے بچنے احتیاطی اقدامات کی ہدایت دی جائے ۔ کسی ایک بھی پہلو پر اقدامات میںا گر کمی یا خامی ہوتی ہے تو پھر ان وبائی امراض کی روک تھام میں کامیابی نہیں ملتی ۔ جہاں تک تلنگانہ میں اور خاص طور پر دونوں شہروں حیدرآبادو سکندرآباد میں اس وباء کا سوال ہے تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ گندگی اور کچرے کے انبار اور صفائی کے ناکافی انتظامات یا پھر متعلقہ عملہ کی لا پرواہی کی وجہ سے یہ صورتحال شدت اختیار کرگئی ہے اور اس کا خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے ۔ ہزاروں کی تعداد میںلوگ بیماریوں کا شکار ہوگئے ہیں۔ ان میں معصوم بچے اور ضعیف افراد بھی شامل ہیں۔ نہ صرف سرکاری دواخانے بلکہ خانگی دواخانے بھی ایسے امراض کا شکار مریضوں سے بھرے پڑے ہیں۔ یہ صورتحال ایسی ہے جس میں حکومت کو فوری حرکت میں آنے کی ضرورت ہے ۔ وزیر صحت ایٹالہ راجندر نے حالانکہ سرکاری دواخانہ کا دورہ کیا ہے اور کچھ اقدامات کئے ہیں لیکن ابھی بہت کچھ کیا جانا باقی ہے ۔ خاص طور پر صفائی کے انتظامات پر توجہ کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ کچرے کی عدم نکاسی کی وجہ سے ایسے امراض بہت زیادہ تیزی سے پھیل رہے ہیں اور عوام کو گرفت میں لے رہے ہیں۔
دونوں شہروں کی صورتحال تو یہ ہے کہ معصوم بچے اس کی گرفت میں زیادہ آ رہے ہیں اور اب تک چند اموات بھی پیش آچکی ہیں۔ اس بات کی توثیق ہوچکی ہے کہ یہ اموات ڈینگو یا پھر ایسے ہی دوسرے وبائی امراض کی وجہ سے ہوئی ہیں۔ ڈینگو کے پھیلنے کی وجوہات میں گندگی اور کچرے کی عدم نکاسی اصل ہیں۔ شہر میں کئی مقامات پر کچرے کی نکاسی عمل میں نہیں آ رہی ہے یا پھر متعلقہ عملہ لا پرواہی سے کام لیتا ہے یا پھر جتنی ضرورت ہے اتنا عملہ دستیاب نہیں ہے ۔ حکومت ہر کام کو کنٹراکٹرس کے حوالے کرکے خود بری الذمہ ہونے لگی ہے اور یہی وجہ ہے حالات اتنے ابتر ہوگئے ہیں۔ جی ایچ ایم سی اور دوسرے متعلقہ محکمہ جات کو خاص طور پر کچرے کی نکاسی کے عمل پر توجہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ خاص طور پر ایسے وقت میں جبکہ بارش کا موسم ہے اور وقفہ وقفہ سے بارش کی وجہ سے بھی گندگی پھیل رہی ہے ۔ اس صورتحال میں کچرے کی بروقت نکاسی کے ذریعہ بڑی حد تک گندگی اور آلودگی کو روکا جاسکتا ہے اورا س سے وبائی امراض کی روک تھام بھی ممکن ہوسکتی ہے ۔ محض ضابطہ کی تکمیل کیلئے اقدامات کئے جاتے ہیں تو اس کے خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوسکتے ۔ یہ مسئلہ چونکہ عوام کی صحت سے متعلق ہے اور کچھ زندگیاں تلف ہونے کے اندیشے بھی لاحق ہوگئے ہیں ایسے میں اس کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ مزید اموات سے بچا جاسکے ۔
ریاستی وزیر صحت ہوں کہ دوسرے وزراء ہو یا پھر متعلقہ اعلی عہدیدار ہوں سبھی کو عوام کی صحت اور معصوم بچوں کی زندگیوںکو ذہن میں رکھتے ہوئے اس تعلق سے فوری اقدامات کرنے ہونگے ۔ جس تیزی سے امراض پھیلے ہیں اور دواخانوں کی جو صورتحال ہے وہ بھی حکومت کی توجہ کی متقاضی ہے ۔ سرکاری دواخانوں کے علاوہ خانگی دواخانوںپر بھی حکومت کو توجہ دینے کی ضرورت ہے اور وہاں بھی عوام کو خاطر خواہ سہولیات اور قابل رسائی اخراجات میں علاج کو ممکن بنانے کیلئے اقدامات کرنے ہونگے ۔ تشویش کے اس ماحول میں طب کو تجارت کے طور پر اختیار کرنے والوں کے خلاف کارروائی بھی ہونی چاہئے اور تمام سرکاری محکمہ جات کو بھی اس میں اپنے اپنے فرائض کی انجام دہی میں جوابدہ بنانا چاہئے ۔