وزیر اعظم مودی کا دورہ امریکہ

   

ہمنوا تو ہیں لیکن ہم قدم نہیں کوئی
سیل میں زمانے کے ہم تو بس اکیلے ہیں
وزیر اعظم نریندر مودی امریکہ کا سرکاری دورہ کر رہے ہیں۔ اپنی دوسری معیاد کے آخری برس تک پہونچتے ہوئے ان کا یہ پہلا سرکاری دورہ امریکہ ہے ۔ انہیں صدر امریکہ جو بائیڈن نے ملاقات اور ڈنر کیلئے مدعو کیا ہے ۔ اس کے علاوہ وہ امریکی کانگریس کے مشترکہ اجلاس سے دوسری مرتبہ خطاب کرنے والے ہیں۔ مودی پہلے ہندوستانی وزیر اعظم ہونگے جنہیں امریکی کانگریس کے مشترکہ اجلاس سے دوسری مرتبہ خطاب کا موقع ملے گا ۔ اس سے قبل ہندوستان سے سابق صدر سروے پلی رادھا کرشنا اور سابق وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ امریکہ کا سرکاری دورہ کرچکے ہیں۔ وزیر اعظم مودی کے اس دورہ کے تعلق سے میڈیا اور خاص طور پر گودی میڈیا میں بہت زیادہ تشہیر کی جا رہی ہے ۔ بلند بانگ دعوے کئے جا رہے ہیں۔ اس کو حکومت کا ایک بڑا کارنامہ قرار دیتے ہوئے عوام کے ذہنوں پر اثرا نداز ہونے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ دنیا کے کئی قائدین اور ہندوستان کے بھی دو سابق ذمہ دار قائدین امریکہ کا سرکاری دورہ کرچکے ہیں۔ اس کے علاوہ آج کا ہندوستان دنیا کی بڑی اور ابھرتی ہوئی معاشی طاقتوں میں شمار ہونے لگا ہے ۔ عالمی امور میں ہندوستان کی رائے اورا س کے موقف کوا ہمیت دی جانے لگی ہے ۔ ایسے میں اگر ہندوستان جیسے ذمہ دار اور بڑے ملک کے وزیر اعظم کو سرکاری دورہ امریکہ پر مدعو کیا جاتا ہے تو یہ ہندوستان کیلئے بڑا اعزاز نہیں کہا جانا چاہئے بلکہ یہ ہمارے ملک کی جمہوریت کی طاقت ہے کہ امریکہ جیسا عالمی لیڈر بھی ہمارے وزیر اعظم کو اپنے ملک کو مدعو کرنے میں فخر محسوس کرنے لگا ہے ۔ امریکہ میں بھی نریندر مودی کے اس دورہ کیلئے تیاریاں عروج پر ہیں۔ کئی طرح سے تشہیر کی جا رہی ہے ۔ کئی پروگرامس کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔ وزیر اعظم نے اس سے قبل بھی امریکہ کے دورے کئے تھے اور اس وقت بھی تشہیری حربے اختیار کئے گئے تھے اور اب بھی اسی طرح کے حربے اختیار کئے جا رہے ہیں۔ اصل مسئلہ صرف تشہیر نہیں بلکہ اس دورہ سے ملنے والے فوائد ہونے چاہئیں اور میڈیا ہو یا گودی میڈیا سبھی کو اس پر توجہ کرتے ہوئے عوام کو واقف کروانا چاہئے ۔
ہندوستان اور امریکہ میں دیرینہ مراسم ہیں۔ تعلقات بتدریج مستحکم ہوتے جا رہے ہیں۔ ان تعلقات کو مزید بلندیوں تک پہونچانے کی گنجائش بھی موجود ہے ۔ امریکہ کے ساتھ تعلقات صرف ہندوستان کے ہی مفاد میں نہیں ہیں بلکہ یہ تعلقات خود امریکہ کیلئے بھی نفع بخش ہوسکتے ہیں۔ ہندوستان اب کسی کی شرطوں پر نہیں اور کسی کو اپنا لیڈر مان کر نہیں بلکہ اپنی قیادت اور صلاحیت کا لوہا منوانے والا ملک بن رہا ہے اور ایسے میں ایک سرکاری دورہ کی اس انداز سے تشہیر کرنا کہ اسے ایک بڑا کارنامہ قرار دیا جائے مناسب نظر نہیں آتا ۔ ہندوستان چونکہ اب بڑی طاقتوں میں شمار ہو رہا ہے اور اس کی اہمیت کو تسلیم کیا جانے لگا ہے ایسے میں ہندوستان کو اپنی شناخت منوانے کا ایک موقع اس دورہ سے دستیاب ہو رہا ہے ۔ انتہائی اہمیت کے حامل امور پر ہندوستان کو امریکہ کے سامنے اپنے موقف کا برملا اظہار کرنے کی ضرورت ہے ۔ آج کا ہندوستان کسی کا دباؤ تسلیم کرنے والا ملک نہیں ہے بلکہ وہ دنیا پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے اور وزیر اعظم کے دورہ کے موقع پر اس بات کا پورا خیال رکھا جانا چاہئے ۔ امریکہ سے مرعوب ہونے اور صرف دورہ کی تشہیر سے خوش ہونے کی بجائے امریکہ کو اہم مسائل پر اپنے موقف سے واقف کروانے اور اسے قائل کرنے پر توجہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ ہندوستان ایسا کرنے کا اہل ہے اور ساری دنیا اس کی اہلیت اور صلاحیت کی معترف ہو رہی ہے ۔ اس موقع کو محض خوش کن تشہیر تک محدود نہیں کیا جانا چاہئے ۔
دفاعی اور تجارتی شعبہ میں ہند ۔امریکہ تعلقات کو اس دورہ کے ذریعہ مزید بلندیوں پر پہونچائے جانے کی امید ہے ۔ اس پہلو پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ امریکہ تاجر برادری اور بڑے کارپوریٹ اداروں کو ہندوستان میں تجارت اور سرمایہ کاری کی اہمیت سے مزید واقف کروایا جانا چاہئے اور انہیں یہ احساس دلانے کی ضرورت ہے کہ یہ سرکاری کاری اور تجارت صرف ہندوستان نہیں بلکہ خود ان کے اپنے بھی مفاد میں ہوگی ۔ یہ حقیقت ہے کہ مودی کا یہ دورہ امریکہ بہت اہمیت کا حامل ہے اور اس سے زیادہ اہمیت اس دورہ سے ہونے والے فائدہ اور مفادات کی ہوگی اور اس پر سبھی کو توجہ دینا چاہئے ۔