وزیر اعظم کا دورۂ حیدرآباد اور بی جے پی

   

ابھی جوش بہاراں دیکھنا ہے
گریباں کو گریباں دیکھنا ہے
وزیر اعظم نریندر مودی جمعرات 26 مئی کو حیدرآباد کا دورہ کرنے والے ہیں۔ وزیر اعظم نریندر مودی انڈین اسکول آف بزنس کے قیام کی 20 سالہ تقاریب میں شرکت کریں گے اور طلبہ سے خطاب کریں گے۔ریاستی عہدیداروں کی جانب سے وزیر اعظم کے دورہ کے انتظامات کو قطعیت دی جا رہی ہے ۔ نقائص سے پاک انتظامات کئے جا رہے ہیں۔ وزیر اعظم ہیلی کاپٹر کے ذریعہ انڈین اسکول آف بزنس تک پہونچیں گے ۔ تاہم بی جے پی قائدین کی جانب سے کوشش کی جا رہی ہے کہ وزیر اعظم کو روڈ شو کی شکل میں وہاں تک پہونچایا جائے ۔ اس دورہ سے بی جے پی کے ریاستی قائدین مکمل سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ حالانکہ وزیر اعظم کا یہ دورہ سرکاری ہے اور سرکاری تقاریب میں ان کی شرکت ہونے والی ہے تاہم بی جے پی کے قائدین کی سار ی کوشش یہی ہے کہ اس دورہ سے سیاسی فائدہ حاصل کیا جاسکے ۔ بی جے پی ریاست میں ٹی آر ایس کا سیاسی متبادل بننے کی پوری کوشش کر رہی ہے ۔ اس کیلئے کوئی بھی موقع ہاتھ سے گنوانا نہیں چاہتی ۔ جو کوئی مرکزی قائدین یا وزراء ریاست کا دورہ کر رہے ہیں ان کا سیاسی استعمال کیا جا رہا ہے ۔ گذشتہ دنوں وزیر داخلہ امیت شاہ کے دورہ تلنگانہ کے موقع پر بھی یہی کوشش کی گئی ہے ۔ کہا جا رہا ہے کہ امیت شاہ اور دوسرے مرکزی قائدین نے تلنگانہ کے تعلق سے جامع حکمت عملی تیار کرتے ہوئے عمل شروع کردیا ہے ۔ ریاستی قائدین جو کو ئی پروگرام یا منصوبہ بنا رہے ہیں مرکزی قیادت کی جانب سے اس کی فوری منظوری دیتے ہوئے حالات کو پارٹی کے حق میں سازگار کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ وزیر اعظم کے دورہ کو بھی اس سے استثنی نہیں رہ گیا ہے ۔ وزیراعظم کی بی جے پی قائدین سے ملاقات ضرور ہوسکتی ہے اور اس میں سیاسی مسائل پر تبادلہ خیال بھی ضرور ہوگا تاہم بی جے پی دورہ کے ہر ہر پہلو سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہی ہے ۔ وزیر اعظم کے دورہ کا سیاسی استحصال خود بی جے پی کا ہی منصوبہ نہیں ہے بلکہ چیف منسٹر کے سی آر بھی اس کا حصہ بن رہے ہیں کیونکہ انہوں نے وزیر اعظم کے استقبال سے معذرت کرلی ہے ۔
سیاسی اعتبار سے جدوجہد کرنے اور اپنے منصوبوں پر عمل کرتے ہوئے عوامی تائید حاصل کرنے کی کوشش کرنا یقینی طور پر بی جے پی کا حق ہے اور اس پر کسی کو اعتراض بھی نہیں ہونا چاہئے ۔ تاہم سرکاری تقاریب کا سیاسی استحصال نہیںہونا چاہئے اور اس سے گریز کرنے کی ِضرورت ہے ۔بی جے پی نے ریاست میں اقتدار حاصل کرنے تک کا جو منصوبہ بنایا ہے اس میں کئی پروگرامس ہوسکتے ہیں۔ یاترائیں اور دیگر منصوبے بھی شامل ہیں۔ تاہم بی جے پی کو یہ احساس بھی ہونے لگا ہے کہ اس کی ساری کوششوں کا پارٹی کو اطمینان بخش رد عمل نہیںمل رہا ہے ۔ عوام پارٹی سے اس حد تک وابستہ نہیںہو پا رہے ہیں جتنی امید بی جے پی کو ہے ۔ پرجا سنگرام یاترا ہو یا اس کے دوسرے پروگرامس ہوں بی جے پی اب بھی ریاست کے رائے دہندوں پر مکمل گرفت بنانے میں کامیاب نہیںہو پائی ہے اور ٹی آر ایس کا جو موقف ہے وہ اب بھی کافی مستحکم ہے ۔ عوامی مسائل پر جدوجہد کرتے ہوئے کوئی بھی جماعت اپنی جگہ بناسکتی ہے ۔ کانگریس پارٹی بھی ایک حکمت عملی تیار کرنے میں مصروف ہے اور وہ بھی اقتدار کی دعویدار ہے ۔ ایسے میں بی جے پی کیلئے اپنے منصوبوں پر عمل کرنا اور ان کو کامیاب کرنا آسان ہیں رہ جاتا ہے ۔ بی جے پی کو بھی اس بات کا احساس ہے کہ ریاستی یونٹ کے قائدین کی جو سرگرمیاں ہیں وہ شائد اسے اقتدار کے زینہ تک پہونچانے میں کامیاب نہیں ہونگی ۔ اسی لئے سرکاری پروگرامس سے بھی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔
بی جے پی کے منصوبوں اور پروگراموں پر جو رد عمل عوام کا سامنے آ رہا ہے اس کے مطابق تو بی جے پی کیلئے ابھی اقتدار کا حصول ’ ہنوز دلی دور است ‘ والی بات ہی ہے ۔ تاہم پارٹی اپنی جدوجہد کو جاری رکھے ہوئے ہے ۔ ریاست کا ماحول ابھی انتخابی نہیں ہوا ہے ۔ ہر جماعت صرف اپنے اپنے منصوبوں کے مطابق کام کر رہی ہے لیکن جب انتخابات کا بگل بجے گا اور عوام کا موڈ تبدیل ہوگا اس وقت یہ اندازہ کیا جاسکے گاکہ ریاست کے عوام کس حد تک اس طرح کی کوششوں کو قبول کر رہے ہیں اور کس پارٹی کے حق میں کیا رائے بن سکتی ہے ۔ تاہم فی الحال بی جے پی خود کو بہت زیادہ پرامید دکھانے کی کوشش کر رہی ہے ۔