وطن کو کچھ نہیں خطرہ نظامِ زر ہے خطرہ میں

   

چین کی جارحیت… 56 انچ کا سینہ کہاں ہے
مودی ہوئے 70 سال … لوک سبھا ٹکٹ خطرہ میں

رشیدالدین
سرحدوں پر امن ہو تو یہ کامیاب حکومت کی علامت تصور کی جاتی ہے۔ سرحد پر کشیدگی ہو تو ملک کی داخلی سلامتی کو خطرہ برقرار رہتا ہے۔ کسی ملک کی ترقی اور خوشحالی کیلئے داخلی اور خارجی سطح پر امن کی برقراری لازمی ہے۔ نریندر مودی حکومت نے اقتدار کے 6 سال مکمل کرلئے لیکن اس مدت کے دوران کسی نہ کسی پڑوسی کے ساتھ سرحد پر کشیدگی برقرار رہی ۔ حکومت داخلی سطح پر کامیابی کے لاکھ دعوے کرلے لیکن خارجہ پالیسی ناکام ثابت ہوئی ۔ جب تک پڑوسیوں سے تعلقات بہتر نہ ہو ، اس وقت تک عالمی سطح پر مقام حاصل نہیں ہوتا۔ 2014 ء میں بی جے پی کے برسر اقتدار آنے سے قبل جو پڑوسی ہندوستان کے دوست تھے، وہ مودی حکومت کی غلط پالیسیوں کے سبب دور ہوگئے ۔ پاکستان سے کشیدگی کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن چین سے کشیدگی نے سنگین نوعیت اختیار کرلی ہے۔ چین نے گزشتہ ایک برس میں سرحد پر جارحیت کا کئی بار مظاہرہ کیا لیکن مودی حکومت منہ توڑ جواب دینے کے بجائے امن کا راگ الاپ رہی ہے۔ چین نے لداخ میں 38 ہزار مربع کیلو میٹر کے علاقہ پر قبضہ کرلیا ہے لیکن 56 انچ کا سینہ رکھنے والے نریندر مودی اپنی زمین واپس حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ فوجی طاقت اور تیاریوں کے بارے میں بلند بانگ دعوے کئے جارہے ہیں لیکن اس کا عملی مظاہرہ دیکھنے کو نہیں ملا۔ چند ماہ قبل جب سے چین نے لداخ میں دراندازی کی ہے، اس وقت سے یہی دعوے کئے جارہے ہیں لیکن حکومت کی کمزوری کے نتیجہ میں نہ صرف اراضی بلکہ فوجیوں کا بھی نقصان ہوا۔ نریندر مودی حالیہ عرصہ تک بھی یہ دعویٰ کرتے رہے کہ ہندوستان کا کوئی علاقہ چین کے قبضہ میں نہیں ہے۔ جب پانی سر سے اونچا ہوگیا تو چینی قبضہ کے اعتراف کے لئے وزیر دفاع راجناتھ سنگھ کو آگے کردیا گیا ۔ چین نے نہ صرف مستقل خیمے قائم کرلئے بلکہ ہندوستان کو گشت سے روک دیا گیا۔ اب جبکہ 38,000 مربع کیلو میٹر علاقہ پر قبضہ کا اعتراف وزیر دفاع نے پارلیمنٹ میں کیا ہے تو پھر وزیراعظم کو قوم سے معذرت خواہی کرنی چاہئے کیونکہ قوم کو گمراہ کن بیانات کے ذریعہ تاریکی میں رکھا گیا ۔

گزشتہ 6 برسوں میں چینی صدر سے مودی کی تین ملاقاتیں رہیں۔ دو ہندوستان میں اور ایک چین میں۔ ستمبر 2014 ء میں چینی صدر نے گجرات کا دورہ کیا تھا اور مودی کو سالگرہ کی مبارکباد پیش کی تھی۔ احمد آباد میں مودی نے چینی صدر کے ساتھ جھولا جھولتے ہوئے دوستی اور امن کی قسمیں کھائیں۔ اپریل 2018 ء میں مودی نے چین کا دورہ کیا جبکہ اکتوبر 2019 ء میں چین کے صدر چینائی آئے ، جہاں سمندرکے کنارے مودی سے ملاقات رہی ۔ ہر ملاقات میں مودی نے پروٹوکول نظرانداز کرتے ہوئے والہانہ استقبال کیا ۔ مودی اور زی جن پنگ کو ہر ملاقات کے دوران ایسا گھل ملکر گفتگو کرتے دیکھا گیا جیسے دونوں سربراہ ہندی میں تبادلہ خیال کر رہے ہوں۔ مودی کو ہر مہمان کے گلے پڑنے کی عادت ہے۔ بار بار گلے ملنے کے دوران جن پنگ نے مودی کے سینہ کا سائز دیکھ لیا ہوگا۔ انہوں نے جب دیکھا کہ مودی کا سینہ 56 انچ کا نہیں ہے تو اس کے بعد سے سرحد پر جارحانہ سرگرمیوں کا آغاز کیا ۔ چین کے خلاف کارروائی کے سلسلہ میں مودی حکومت آخر خوفزدہ کیوں ہے؟ سارے ملک نے ایک آواز میں ہندوستانی فوج کے حوصلے بلند کرنے کی کوشش کرتے ہوئے حکومت ہند کے کسی بھی اقدام کی تائید کا اعلان کیا۔ باوجود اس کے حکومت صرف کاغذی شیر کی طرح بیان بازی کر رہی ہے۔ وادیٔ گلوان میں 20 سے زائد ہندوستان سپاہیوں کو ہلاک کیا گیا لیکن آج تک شہید جوانوں کے خون کا بدلہ نہیں لیا جاسکا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ چین کی جگہ اگر پاکستان نے ایسی حرکت کی ہوتی تو کیا ایسی خاموشی اختیار کی جاتی ؟ مودی حکومت نے پاکستانی جارحیت کے جواب میں دو مرتبہ سرجیکل اسٹرائیک کرتے ہوئے دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا۔ پاکستان کے خلاف جوابی کارروائی لیکن چین کے تعلق سے خوف کا ماحول کیوں ؟ چین کے زیر قبضہ علاقہ کے ساتھ ہندوستان نے مقبوضہ کشمیر کا بھی حوالہ دیا جو 1948 ء تک ہندوستان کا حصہ تھا ۔ سنگھ پریوار کے ایجنڈہ اور بی جے پی کے انتخابی منشور میں مقبوضہ کشمیر کو واپس لینے کا وعدہ شامل ہے لیکن دیگر وعدوں کی طرح اس وعدہ پر توجہ نہیں دی گئی۔ اگر یہی پالیسی جاری رہی تو مقبوضہ کشمیر کی طرح لداخ کے علاقے مستقل طور پر چین کی تحویل میں رہیں گے ۔ اسلام اور مسلمانوں کو نشانہ بنانے سے متعلق امور پر فوری عمل کیا گیا۔ شریعت میں مداخلت کرتے ہوئے طلاق ثلاثہ پر پابندی اور رام مندر کی تعمیر جیسے ایجنڈہ کی تکمیل کرلی گئی ۔

اب تو دہلی میں مظلوم مسلمانوں کو ظالم کے طور پر پیش کیا جارہا ہے۔ سارا ملک جانتا ہے کہ بی جے پی قائدین نے ہندوؤں کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکایا تھا۔ فسادات میں مسلمانوں کا جانی اور مالی نقصان ہوا لیکن پولیس کی رپورٹ میں متاثرین کو ملزمین کے طور پر پیش کیا گیا۔ جمہوری اور دستوری حقوق کے لئے اٹھنے والی آوازوں کو ملک دشمن کا نام دے کر مقدمات میں ماخوذ کیا جارہا ہے ۔ جہد کاروں، سیول رائٹس کارکنوں اور طلبہ قائدین کے خلاف کارروائی کرنے والی حکومت سرحد پر اپنی بہادری کا مظاہرہ پیش کرے۔ چین اور پاکستان سے مقبوضہ علاقوں کو واپس لیتے ہوئے 56 انچ کے سینے کا ثبوت دیں۔ کب تک معصوم عوام کو 56 انچ کے نام سے ڈرایا جائے گا۔
وزیراعظم نریندر مودی 70 برس کے ہوگئے اور سالگرہ کے موقع پر ملک اور بیرون ملک سے مبارکبادی کے پیامات موصول ہوئے۔ کووڈ۔19 کے سبب وزیراعظم نے سالگرہ کی تقریب منعقد نہیں کی تاہم پارٹی قائدین نے اپنے اپنے طور پر وزیراعظم کی سالگرہ منائی ۔ کسی بھی شخص کے لئے سالگرہ کا دن خوشی کا باعث ہوتا ہے لیکن وزیراعظم نریندر مودی کے لئے 70 سال کا ہونا ، ان کی فکرمندی میں اضافہ کا سبب بن چکا ہے ۔ بی جے پی نے گزشتہ انتخابات کے موقع پر فیصلہ کیا تھا کہ جو قائدین 70 سال کے ہوچکے ہیں، انہیں لوک سبھا کا ٹکٹ نہیں دیا جائے گا۔ اسپیکر لوک سبھا سمترا مہاجن نے ٹکٹ کیلئے لمحہ آخر تک کوشش کی لیکن یہ کہتے ہوئے ان کا ٹکٹ کاٹ دیا گیا کہ عمر 70 سال ہوچکی ہے اور پارٹی نے اصولی طور پر جو فیصلہ کیا ہے ، اس کی خلاف ورزی نہیں کی جاسکتی۔ 70 سال سے زائد عمر کے نتیجہ میں ایل کے اڈوانی اور مرلی منوہر جوشی کو بھی ٹکٹ سے محروم کردیا گیا۔ نریندر مودی 70 سال کے ہوگئے اور ظاہر ہے کہ آئندہ لوک سبھا انتخابات تک ان کی عمر 74 سال ہوجائے گی ۔ کیا ہی بہتر ہوتا کہ مودی ابتداء سے اپنی سالگرہ منانے سے گریز کرتے تاکہ حقیقی عمر کا انکشاف نہ ہوتا لیکن اب جبکہ دنیا کو پتہ چل چکا ہے کہ مودی کی عمر 70 سال ہوچکی ہے تو پھر آئندہ لوک سبھا انتخابات میں مودی کے ٹکٹ کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔ کیا نریندر مودی پارٹی فیصلہ کو قبول کریں گے یا پھر وزیراعظم کیلئے عمر کی رعایت دی جائے گی، یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ جس طرح سرکاری ملازمین کیلئے وظیفہ پر سبکدوشی کی عمر مقرر ہے، اسی طرح سیاستدانوں کیلئے بھی سبکدوشی کی عمر ہونی چاہئے ۔ 60 سال کی عمر کے بعد عام طورپر انسان جسمانی اور ذہنی اعتبار سے کمزور ہونے لگتا ہے، ویسے بھی نریندر مودی ان دنوں جسمانی طور پر کمزور دکھائی دے رہے ہیں۔

کیا بی جے پی آئندہ لوک سبھا انتخابات تک نریندر مودی کا متبادل تلاش کرلے گی یا پھر انہیں عمر کی رعایت دی جائے گی ؟ اسی دوران بہار میں انتخابات کے پیش نظر مودی نے اپنی ساری توجہ مرکوز کردی ہے۔ وقفہ وقفہ سے ترقیاتی پراجکٹس کا آن لائین اعلان کیا جارہا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ترقی کے سارے کام بہار تک محدود ہوچکے ہیں۔ چار برسوں تک بہار کی ترقی کا خیال نہیں آیا ، جہاں نہ صرف غربت اور بیروزگاری انتہا پر ہیں بلکہ معمولی بارش کی صورت میں سیلاب کسانوں کیلئے مصیبت بن جاتا ہے۔ مودی کی جانب سے اعلان کردہ اسکیمات کا انتخابات پر کس حد تک اثر پڑے گا ، اس بارے میں انتخابی مہم کے آغاز کے بعد اندازہ کیا جاسکے گا۔ بہار این ڈی اے میں پھوٹ کا فائدہ بی جے پی اٹھانا چاہتی ہے۔ رام ولاس پاسوان نے جے ڈی یو امیدواروں کے خلاف مقابلہ کا اعلان کیا ہے۔ یہ تنازعہ سیاسی مبصرین کے مطابق بی جے پی کو فائدہ پہنچا سکتا ہے۔ مشہور شاعر حبیب جالب نے کیا خوب کہا ہے ؎
وطن کو کچھ نہیں خطرہ نظامِ زر ہے خطرہ میں
حقیقت میں جو رہزن ہے وہی راہبر ہے خطرہ میں