وکاس دوبے کی گرفتاری

   

اترپردیش کے شہر کانپور میں 8 پولیس اہلکاروں کو ہلاک کردینے کے بعد فرار ہونے والا انتہائی مطلوب مجرم وکاس دوبے بالآخر مدھیہ پردیش کے شہر اجین کے ایک مندر کے پاس سے گرفتار کرلیا گیا ۔ پولیس کا یہ دعوی ہے کہ یہ وکاس دوبے کو گرفتار کیا گیا ہے لیکن جو تفصیل سامنے آ رہی ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ پولیس اہلکاروں کو موت کے گھاٹ اتارنے والے اس مجرم کو بھی سیاسی پناہ میں قانون کے حوالے کروایا گیا ہے ۔ یہی وہ وکاس دوبے ہے جس نے کانپور میں خوف و دہشت کا ماحول پیدا کررکھا تھا ۔ پولیس عہدیداروں ‘ سیاسی قائدین اور دوسروں کو قتل کردینا یا اغوا کردینا اس کیلئے انتہائی معمول کی بات تھی اور وہ اپنے جرائم کی فہرست کے ساتھ اپنے قد میں مزید اضافہ کرتا جا رہا تھا ۔ یہی وہ وکاس دوبے ہے جس نے ایک پولیس اسٹیشن میں ایک وزیر کا تک قتل کردیا تھا لیکن اس کو سزا دلانے میں پولیس ناکام رہی تھی ۔ جب عدالت سے اسے بری کردیا گیا توا س کے خلاف کوئی اپیل تک دائر نہیں کی گئی تھی ۔ زمینات پر قبضے کے معاملات میں بھی وہ ملزم رہا ہے ۔ کئی مقدمات زیر دوران تھے ۔ درجنوں ایف آئی آر میں اس کا نام تھا لیکن اس کے خلاف کسی نے کوئی کارروائی نہیں کی تھی اور بالآخر جب اسے گرفتار کرنے کا فیصلہ کیا گیا تو اس نے آٹھ پولیس اہلکاروں کو موت کے گھاٹ اتار کر فرار اختیار کی اور ساری ریاست میں چوکسی اور سرحدات کو بند کردئے جانے کے باوجود مدھیہ پردیش کے شہر اجین تک پہونچ گیا تھا ۔ یہ در اصل اترپردیش پولیس کی نا اہلی کی اور ملی بھگت کا ثبوت ہے ۔ سارا نظام قانون اور نفاذ قانون کی ایجنسیاں ایک انتہائی خطرناک مجرم کو گرفتار کرنے میں نہ صرف ناکام رہیں بلکہ اس کے ساتھ ساز باز کرتے ہوئے اسے نہ صرف کانپور سے اجین تک فرار ہونے کا موقع دیا گیا بلکہ اجین میں اسے رچے رچائے ڈرامہ کے تحت قانون کے حوالے کروادیا گیا ۔ اس کو گرفتاری کا نام دیتے ہوئے پولیس ایجنسیاں اپنی پیٹھ تھپتھپانے کی از خود ہی کوشش کرنے لگی ہیں۔ یہ اگر گرفتاری بھی ہے تب بھی کوئی قابل ستائش کام نہیں ہے کیونکہ اسے اسکے گھرسے ہی فرار ہونے کاموقع نہیں دیا جانا چاہئے تھا ۔

وکاس دوبے کے گھر پر چھاپہ ‘ اس کو قبل از وقت اطلاع ‘ اس کی فرار ‘ پولیس عہدیداروں کے ساز باز ‘ سیاسی سرپرستی ‘ اترپردیش سے مدھیہ پردیش تک فرار ‘ فرار میں مدد دینے والے افراد اور اجین میں اس کی گرفتاری کے نام پر خود سپردگی کو یقینی بنانے والوں کے خلاف کارروائی کرنے کی ضرورت ہے ۔ پہلے اس کیلئے جامع اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کی ضرورت ہے جس کی فی الحال کوئی امید نہیں کی جاسکتی ۔ وکاس دوبے وہ مجرم ہے جس کے پاس سیاستدانوں ‘ اعلی عہدیداروں ‘ پولیس اہلکاروں اور مقامی عناصر تک کا کچا چٹھا موجود ہے ۔ سبھی نے کسی نہ کسی موقع پر اس کی مدد لی ہے یا اس سے انعامات و تحائف ضرور حاصل کرتے رہے ہیں۔ سیاسی قائدین ووٹوں کیلئے وکاس دوبے کا سہارا لیتے رہے ہیں۔ پولیس عہدیدار ہو یا پھر دوسرے سیول حکام ہوں انہوں نے بھی وکاس دوبے کے کاموں میں اپنا اپنا حصہ ضرور وصول کیا ہے اور اب اگر اس سارے معاملے کی غیر جانبدارانہ تحقیقات ہوتی ہیں تو کئی نام سامنے آسکتے ہیں۔ کئی راز فاش ہوسکتے ہیں۔ کئی عہدیداروں اور سیاستدانوں کی پگڑیاں اچھل سکتی ہیں۔ کئی ذمہ دار افراد اپنی کرسیوں اور ذمہ داریوں سے محروم ہوسکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ اندیشے پیدا ہونے لگے ہیں کہ جس طرح سے وکاس دوبے کی گرفتاری کو روک کر مبینہ خود سپردگی کی راہ ہموار کی گئی تھی اسی طرح اس سے راز اگلوانے یا راز ہمیشہ کیلئے دفن کردینے کی سازشیں بھی ہوسکتی ہیں۔ جرائم کی دنیا میں ایک بھونچال آسکتا ہے ۔

اترپردیش کو جرائم اور مجرمین سے پاک بنانے کا راگ الاپنے والے آدتیہ ناتھ کی حکومت میں قانون جس طرح ایک مجرم کے سامنے بے بس ہوگیا تھا وہ افسوسناک ہے ۔ اب نہ صرف یو پی حکومت کو بلکہ مرکز کو بھی اس سارے معاملے کا نوٹ لینا چاہئے ۔ جو پولیس عہدیدار اس مجرم سے ساز باز رکھتے تھے ان کے خلاف کارروائی ہونی چاہئے ۔ اس کے جرائم کی مکمل جانچ ہونی چاہئے ۔ اس کو ملنے والی سیاسی سرپرستی کا پردہ فاش ہونا چاہئے ۔ ساتھ ہی یہ بھی پتہ چلانا چاہئے کہ اگر اس نے خود سپردگی اختیار کی ہے تو اس میں کس نے مدد کی ہے اور یہ مدد کرنے میں کس کا فائدہ ہوا ہے ۔ تحقیقاتی ایجنسیوں کو بھی پوری دیانتداری اور پیشہ ورانہ دیانت داری کے ساتھ سارے معاملے کی جانچ کرکے حقائق کو منظر عام پر لانا چاہئے ۔