ویڈیو میں جس شخص کو دہلی پولیس قومی ترانہ گانے کے لئے مجبور کررہی ہے‘ زخموں سے جانبرہ نہ ہوسکا۔ ویڈیو

,

   

نئی دہلی۔ ایک ویڈیو 25فبروری‘ منگل کے روز سوشیل میڈیا پر وائیرل ہوا جس میں پولیس جوانوں کو پانچ نیم مردہ حالت میں زمین پر پڑے لوگوں کا ویڈیو نکلاتے ہوئے دیکھایا گیا ہے‘

جبکہ ایک پولیس والا یہ سارا واقعہ اپنے موبائیل فون میں قید کررہاتھا جب انہیں قومی ترانہ گانے کے لئے مجبور کیاجارہا تھا۔

انڈین ایکسپریس کی خبر کے مطابق ان پانچ میں سے ایک 24سالہ فیضان کی جمعرات کے روز موت ہوگئی

YouTube video

فیضان جو کردم پوری کا ساکن ہیں ایل این جے پی اسپتال میں زخمو ں سے جانبرنہ ہوسکا۔

ایل این جے پی اسپتال کے میڈیکل ڈائرکٹر ڈاکٹر کشور سنگھ نے انڈین ایکسپریس کو بتایا کہ”منگل کے روز انہیں اسپتال کے نیرو سرجری وارڈ میں داخل کیاگیاتھا اور جمعرات کی صبح وہ فوت ہوگئے۔ انہیں گولیاں لگی تھیں اور ان کی کیفیت کافی تشویشناک تھی“۔

این ڈی ٹی وی کے رپورٹر سرینواسن جین کے بموجب مذکورہ متوفی شناخت وائیرل ویڈیو میں نیلے رنگ کا شرٹ پہنے ہوئے شخص کی حیثیت سے کی گئی جو سڑک کے کنارے پڑا ہوا ہے۔

فیضان کے بڑے بھائی نعیم جو ایک گوشت کی دوکان میں کام کرتے ہیں نے نیوز 18کو بتایا کہ فیضان کو اس سے قبل جی ٹی بی اسپتال لے جایاگیاتھا جہاں پر اس کا”برائے نام“ علاج کیاگیاتھا۔

انہوں نے کہاکہ ”وہاں پر برائے نام اس کاعلاج کیاگیا اور اس کے ساتھ ہی فیضان کو جیوتی نگر پولیس اسٹیشن لے جایاگیا جہاں پر اسے دو روز تک رکھاگیا۔

میرے بھائی کی موت لاک آپ میں ہوئی ہے۔ مگرپولیس والوں نے ہمیں اسے دیکھنے نہیں دیاتھا۔ انہوں نے ہمارے ساتھ بدسلوکی کی اورہمیں پولیس اسٹیشن کے باہر پھینک دیاتھا“۔

اس ویڈیو میں دیکھائی دینے والے طارق علی والد کوثر علی نے انڈین ایکسپریس کو بتایا کہ فیس بک پر ہم نے یہ ویڈیو دیکھا اور ہمیں پتہ چلا ہے کہ ان لوگوں میں ایک ہمارے والد ہیں۔

کوثر علی اس روز انڈیا گیٹ سے کردم پوری اپنے گھر واپس لوٹ رہے تھے۔

قبل ازیں الٹ نیوز نے آزادنہ طور پر اس ویڈیو کی تصدیق کی تھی اور ویڈیو میں دیکھائی دینے والے پانچ لوگوں میں ایک سے انہوں نے بات کی جس نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ”پولیس بے رحمی کے ساتھ 5-6لوگوں کو مار رہی تھی۔

انہوں نے کسی کا ہاتھ بھی توڑ دیاتھا‘ تو کسی کے پیر کو توڑا۔ میرا ہاتھ او رپیر بھی ٹوٹا ہوا ہے۔ میرے سر پر 8-10ٹانکے بھی لگے ہیں۔میں بات کرنے سے بھی قاصر ہوں۔

وہاں پرپولیس کہہ رہی تھی کہ تم آزادی چاہتے ہو؟“۔ فیضان کے بھائی نعیم نے بھی الزام لگایا ہے کہ پولیس کو اس بات کی جانکاری تھی کہ وہ مر گیاہے۔

فیضان کے بہنوائی ببلو نے کہاکہ ”ہمیں جو کچھ ان کی طرف سے ملا ہے وہ مسخ شدہ نعش‘ سرسے خون رس رہاتھا‘ اور جبڑا بھی ٹوٹا ہوا تھا۔

وہ فیضان نہیں تھا۔ میں نے اپنے بھائی کو رات بھر درد میں تڑپتا دیکھا ہے۔

وہ بارہا کہہ رہاتھا ”پولیس نے مجھے پیٹا۔ وہ مجھ کو مارتے رہے“