پائلٹ ابھینندن کی وطن واپسی

   

ہماری محبت کا بدلہ ہے شاید
لہو رنگ صُبحیں، لہو رنگ شامیں
پائلٹ ابھینندن کی وطن واپسی
ہندوستانی فضائیہ کے ونگ کمانڈر ابھینندن کی وطن واپسی پر پورا ملک خوش ہے۔ سیاستدانوں کیلئے یہ واقعہ آنے والے لوک سبھا انتخابات میں سیاسی ماحول کو گرمانے کا باعث بنے گا۔ مرکز کی مودی حکومت نے پاکستان کے جذبہ خیرسگالی پر اظہارتشکر کے بجائے ایک دوری کو برقرار رکھا۔ ابھینندن کا ہیرو کی طرح استقبال کیا جانا ایک فطری امر ہے۔ انہوں نے اپنی گرفتاری کے بعد جس طرح کی پیشہ وارانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے ہوئے جہاں پاکستانی فوج کو ان کے فرائض پر پابند رہنے پر مجبور کیا وہیں اپنی ذمہ داری اور معلومات فراہم نہ کرنے کی صلاحیتوں کو خوبی سے بروئے کار لایا۔ حکومت پاکستان نے بھی ان کے ساتھ جنگی قیدی کی طرح برتاؤ کرتے ہوئے جذبہ خیرسگالی کا مظاہرہ کیا۔ وزیراعظم پاکستان عمران خان کے اس فیصلہ کا ساری دنیا نے خیرمقدم کیا ہے لیکن ہندوستان کے اندر جو کچھ بیانات گشت ہونے لگے ہیں وہ افسوسناک ہیں بلکہ دو ملکوں کے درمیان کشیدگی کو کم کرنے والے اقدامات کے برعکس ماحول کو مزید گرمانے کا کام کرتے ہیں۔ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان تازہ تصادم کا مرحلہ ابھی ختم ہی نہیں ہوا کہ ہندوستانی الیکٹرانک میڈیا اور ایک مخصوص نفرت پھیلانے والا سوشیل میڈیا مخالف پاکستان مہم میں سرگرم ہوگیا۔ پلوامہ میں سی آر پی ایف قافلہ پر جیش محمد کے خودکش بم بردار کے حملے اور 40 جوانوں کی ہلاکت پر سیاست کرنے والوں نے ابھینندن کی رہائی کو بھی سیاسی تخت مشن بنا لیا ہے۔ ہر کوئی یہ بھول گیا یا پھر کسی کو اس حقیقت سے بے خبر رکھا گیا کہ پلوامہ میں جو حملہ ہوا اس کی شدت اور عصری تیاری کے ساتھ کی گئی کارروائی کو روکنے میں ناکامی پر پردہ ڈالا گیا۔ ہندوستانی انٹلیجنس کی بدترین ناکامی کی جانب کسی نے سوال ہی نہیں اٹھایا اور اس ناکامی کیلئے اب تک کسی نے بھی حکومت اور سرکاری ایجنسیوں کا گریبان پکڑنے کی ہمت کی ہے۔ پلوامہ حملے کے بعد سرحد پر جھڑپیں ہونا یا جوابی قدم اٹھانا ایک معمول کی کارروائی ہوتی ہے لیکن مودی حکومت نے پاکستان کی سرزمین کے اندر ایک ٹارگٹ پر فضائی حملے کرنے کا حکم دے کر جو جوکھم اٹھایا تھا اسی کا نتیجہ تھا کہ ہندوستانی فضائیہ کا پائلٹ ونگ کمانڈر ابھینندن ورتھمان کو اپنے مشن کی تکمیل کے دوران گرفتاری کا سامنا کرنا پڑا۔ جنوبی ایشیاء کے اس خطہ میں جہاں دو پڑوسی ممالک نیوکلیئر طاقت کے حامل ہیں وہاں اول تصادم ہوتا ہے اور بعدازاں خیرسگالی کے جذبہ کے تحت گرفتار پائلٹ کو رہا کردیا جاتا ہے تو یہ امن کی کوششوں کے احیاء کی علامت سمجھی جانی چاہئے۔ وزیراعظم پاکستان عمران خاں کے جذبہ خیرسگالی پر ساری دنیا میں اگر ستائش ہورہی ہے تو یہ بات ہندوستان کے اندر بعض طاقتوں کیلئے ناگوار ہے لیکن وزیراعظم نریندر مودی کیلئے کوئی پریشانی کی بات نہیں ہے کیونکہ انہوں نے دہشت گرد ٹھکانوں پر حملے کرنے کیلئے پاکستان کے فضائی حدود میں داخل ہونے کیلئے ہندوستانی فضائیہ کو حکم دیا اور ایک پائلٹ پراجکٹ کے تحت فضائی حملے کروائے گئے تو اس کے مستقبل میں رونما ہونے والے بھیانک نتائج کو نظرانداز کردیا گیا۔ ہندوستانی سیاسی قیادت کو ہوسکتا ہیکہ مستقبل کے حالات سے اس کی کوئی پرواہ نہ ہو کیونکہ اس قیادت کے حامیوں کو اس بات کا اطمینان ہیکہ ہندوستانی میڈیا بھی ان کے حامیوں میں شامل ہے اور وہ سیاسی قیادت کا ووٹ مستحکم کرنے میں بھرپور معاونت کررہا ہے لیکن اس ہمدردی اور طرفداری کے درمیان اس بات کو نظرانداز کرنا بہت بھیانک غلطی ہے کہ پاکستان پر ہندوستانی فضائی حملے پر جو عالمی ردعمل آیا ہے وہ ہندوستان کیلئے غور طلب ہے۔ حالات سے ظاہر ہوتا ہیکہ ہندوستان کی سیاسی قیادت کو پلوامہ واقعہ پر سیاست کرنے کا بہترین موقع ہاتھ آیا ہے لیکن گرفتار ہندوستانی فضائیہ کے پائلٹ نے اپنی قابلیت اور شعوری پن کا شاندار مظاہرہ کرتے ہوئے یہ ثابت کردیا کہ وہ نہ صرف ایک اچھے تربیت یافتہ پائلٹ ہیں بلکہ اپنے گرفتار کرنے والوں کو اس بات سے قائل کرانے میں بھی کامیاب ہوئے کہ وہ ایک جنگی قیدی ہیں جس کے ساتھ عالمی اصولوں کے مطابق سلوک کیا جانا چاہئے۔ اس واقعہ سے نمٹنے میں پاکستان نے خیرسگالی کا سہارا لیا مگر اس پر ہندوستان اور عالمی سطح سے پڑنے والے دباؤ کے نتیجہ میں ہی ابھینندن کی رہائی کی راہ ہموار ہوئی۔ دونوں ملکوں کو اس واقعہ کے حوالے سے کشیدہ ماحول کو مزید ابتر ہونے سے روکنا ہوگا۔ ہر دو جانب ناعاقبت اندیشانہ کارروائیاں کرنے سے گریز کرنا ہوگا۔ خطہ میں امن کیلئے ضروری ہیکہ حکومت پاکستان اپنی سرزمین پر سرگرم دہشت گردگروپس کو ختم کردے۔ وزیراعظم پاکستان عمران کایہ کہنا کافی نہیں ہیکہ وہ خیرسگالی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہندوستان سے امن کی بات چیت کیلئے تیار ہیں۔ اس بات چیت کی تیاری سے قبل پاکستان میں موجود دہشت گرد تنظیموں کے خلاف کارروائی کی جانی چاہئے جو ہندوستان کا دیرینہ مطالبہ بھی ہے۔ ابھینندن کی ہندوستان واپسی بھی دونوں ملکوں کیلئے امن اقدامات کی نئی شروعات ہے تو اس کو مثبت انداز میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔
دشمنی ختم کرنے کی کوشش ناکام
صدر امریکہ ڈونالڈ ٹرمپ اور شمالی کوریا کے لیڈر کم جونگ ان کے درمیان ویتنام میں ہوئی دوسری چوٹی ملاقات بغیر نتیجہ ختم ہوگئی۔ شمالی کوریا اور امریکہ کے درمیان 70 سال سے جاری کشیدگی کو دور کرنے کیلئے حالیہ برسوں میں یہ دوسری کوشش تھی۔ دونوں ملکوں کا اپنے موقف پر اٹل رہنا ہی سب سے بڑی خرابی ہے۔ دونوں لیڈروں نے اپنے اپنے ملکوں سے نیک جذبہ سے روانہ ہوئے لیکن ویتنام پہنچنے کے بعد ان کا جذبہ باہمی مذاکرات کے درمیان ہی سرد پڑ گیا۔ یہ افسوس کی بات ہیکہ صدر امریکہ کو باہمی بات چیت کے درمیان سے ہی چلے جانا پڑا۔ شمالی کوریا کو اس کے نیوکلیئر عزائم سے باز رکھنے ٹرمپ کی کوششیں رائیگاں ہورہی ہیں۔ جب دونوں فریق اپنے رویہ میں نرمی نہیں لاتے مذاکرات میں پیشرفت کی امید نہیں کی جاسکتی۔ شمالی کوریا اپنے نیوکلیئر پروگرام بند کرنے سے قبل امریکی معاشی تحدیدات کو برخاست کرانا چاہتا ہے۔ امریکہ کو ہی سب سے پہلے معاشی تحدیدات ہٹالینے کی شرط رکھنے والے شمالی کوریا کے لیڈر کم جونگ نے کوریائی خطہ کے اطراف امن اقدام پر سوالیہ نشان لگادیا ۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ دونوں لیڈروں میں سے کوئی ایک لیڈر فراخدلی کا مظاہرہ کرتا لیکن ایسا نہیں ہوسکا۔ کم جونگ ان نے اپنے نیوکلیئر پروگرام کو بند کرنے کا گذشتہ سال سنگاپور چوٹی کانفرنس میں وعدہ کیا تھا اور ویتنام میں اس ملاقات سے کافی توقعات وابستہ کی گئی تھیں لیکن اس عجلت میں ختم ہوئی چوٹی بات چیت کا ایک مثبت پہلو یہ نکلا کہ صدر امریکہ ٹرمپ نے یہ تیقن ضرور دیا کہ وہ بات چیت کے امکان کو کھلا رکھتے ہیں اور مستقبل میں اس موضوع پر غور کرنے کا ایک اور موقع تلاش کرنا ضروری ہے۔