پارلیمانی انتخابات اوراپوزیشن اتحاد

   

ملک میں پارلیمانی انتخابات کا شیڈول آئندہ چند ہفتوں میںجاری ہوسکتا ہے ۔ بی جے پی نے آئندہ انتخابات کیلئے اپنی تیاریوں کا آغاز کردیا ہے ۔ اب کی بار 400 پار کا نعرہ دیتے ہوئے اپنے منصوبوںپر عمل آوری شروع کی جاچکی ہے ۔ مختلف محاذوں سے بی جے پی آئندہ انتخابات کی تیاریاں کر رہی ہے ۔ اسے یقین ہے کہ تیسری معیاد کیلئے بھی اسے ملک کے عوام کی تائید و حمایت حاصل ہوگی اور وہ مرکز میں اقتدار کی ہیٹ ٹرک کرنے میںکامیاب ہوجائے گی ۔ جہاں تک اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد کا سوال ہے تو اس نے ابھی تک آئندہ انتخابات کیلئے کوئی جامع حکمت عملی اور منصوبہ تیار نہیں کیا ہے ۔ حالانکہ اتحاد میںشامل جماعتیں متحد ہو کر انتخابات میں مقابلہ کرنے کی حمایت کرتی نظر آرہی ہیں اور اس کیلئے کچھ اجلاس بھی منعقد ہوئے ہیں تاہم پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات میںکانگریس کے کمزور مظاہرہ نے ایسا لگتا ہے کہ کچھ جماعتوںکو تشویش میں مبتلا کردیا ہے ۔ پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کا عمل مکمل ہوچکا ہے ۔ اس میںجو کچھ ہونا تھا وہ بھی ہوچکا ہے ۔ اب آئندہ انتخابات کی حکمت عملی کا تعین کیا جانا چاہئے ۔ ماضی کی غلطیوں کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے جس کی بنیاد پر مستقبل کے منصوبے کو قطعیت دینے میں مدد مل سکتی ہے ۔ ہر جماعت کو ایک دوسری کی کمزوریوں اور ایک دوسری کی طاقت کا اندازہ کرتے ہوئے اس کے مطابق حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے ۔ ایسا نہیں ہے کہ بی جے پی کو انتخابات میںشکست نہیں دی جاسکتی ۔ ایک سے زائد مواقع پر بی جے پی نے شکست کا سامنا بھی کیا ہے ۔ چاہے ہماچل پردیش میں ہو یا مغربی بنگال میں ہو ۔ چاہے کرناٹک میں ہو یا پھر تلنگانہ میں ہو یا پھر کچھ اور مقامات پر بھی بی جے پی کو شکست کا منہ دیکھنا پڑا تھا ۔ اس کیلئے ضرورت اس بات کی ہے کہ اپوزیشن جماعتیں متحد ہوجائیں اور ایک دوسرے سے اشتراک کرتے ہوئے جامع حکمت عملی بنائیں۔ ایک دوسرے کے ساتھ حقیقی معنوں میں مل کر کام کرنے کے جذبہ کے تحت آگے بڑھا جائے اور اتحاد میں جو خامیاں رہ گئی ہیں ان کو دور کرنے پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے منصوبے تیار کئے جائیں۔
بی جے پی کا جہاں تک سوال ہے تو اس کے پاس سب سے بڑی اور سب سے موثر انتخابی حکمت عملی موجود ہے ۔ مشنری موجود ہے ۔ تشہیری حربے ہیں۔ سوشیل میڈیا پر کام کرنے والے لوگ ہیں اور ملک کا میڈیا خود بی جے پی کا ترجمان بنا ہوا ہے ۔ ایسے میںاپوزیشن جماعتوں کے اتحاد کو بہت زیادہ محنت کرنے کی ضرورت ہوگی ۔ حکومت کو نشانہ بنانے اور اس کی خامیوں ‘ ناکامیوں اور کمزوریوں کو عوام کے سامنے موثر ڈھنگ سے پیش کرنا ہوگا ۔ اس کے علاوہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ عوام کو یہ یقین دلانا ہوگا کہ اپوزیشن جماعتوںکا اتحاد بی جے پی کا ایک موثر اور مستحکم متبادل بن سکتا ہے ۔ عوام کے سامنے اگر یہ متبادل پیش کرنے میں اور عوام میں اس تعلق سے اعتماد پیدا کرنے میں کامیابی ملتی ہے تو پھر بی جے پی کو شکست سے دوچار کرنا بہت زیادہ مشکل نہیں رہ جائیگا ۔ اس اتحاد کو تشہیری حربہ پر بھی زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ بی جے پی ہر مسئلہ کو اپنے انداز میں ڈھال کر پیش کرنے میں مہارت رکھتی ہے ۔ اس نے رام مندر کے افتتاح سے بھی سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوششیںشروع کردی ہیں۔ کئی اور مسائل ہیں جن سے بی جے پی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے ۔ ایسے میںماہرین کی رائے اور مشوروں کے ذریعہ اپوزیشن جماعتوںکو بھی اس کا توڑ تیار کرنا ہوگا ۔ عوام میں ہر مسئلہ پر حکومت کے مقابل خود کو پیش کرنے کی کوشش کرنی ہوگی ۔ میڈیا پر انحصار کرنے کی بجائے خود کے سوشیل میڈیا گروپس بناتے ہوئے عوام تک رسائی حاصل کرنی ہوگی ۔
تمام جماعتوں کے مابین نشستوں کی تقسیم ہو یا پھر اقل ترین مشترکہ پروگرام ہو اس پربھی جلد از جلد قطعیت کو پہونچنا ضروری ہے ۔ ایک دوسرے کے خلاف مقامی سطح پر ہو ‘ ریاستی سطح پر ہو یا پھر قومی سطح پر ہو بیان بازیوں سے گریز کرنا چاہئے ۔ معمولی سی بات کو بھی میڈیا توڑ مروڑ کر پیش کرسکتا ہے ۔ اس بات کو ذہن نشین رکھنے کی ضرورت ہے ۔ جتنا جلد ممکن ہوسکے اس اتحاد کو اپنے تمام امور طئے کرنے کی ضرورت ہے تاکہ عوام کے درمیان پہونچتے ہوئے اپنے منصوبوں سے انہیں واقف کروایا جاسکے ۔ بی جے پی کو شکست دینا اپوزیشن کی بقاء کیلئے ہی نہیں بلکہ ملک میں جمہوریت کے استحکام اور وفاقی طرز حکمرانی کی بقاء کیلئے بھی ضروری ہے ۔