پاکستان بھی سری لنکا کی راہ پر ؟

   

ایشیائی ممالک کی معیشتیں ایسا لگتا ہے کہ مشکل ترین حالات کا شکار ہوتی جا رہی ہیں۔ گذشتہ مہینوں میں جب سری لنکا میں معاشی بحران کا آغاز ہوا تو یہ سبھی کیلئے حیرت کی بات اور غیر متوقع تبدیلی تھی ۔ صورتحال اس حد تک بگڑ گئی ہے کہ سری لنکا میں پٹرول اور ڈیزل کا ملنا تک مشکل ہوگیا ہے ۔ سری لنکا کی حکومت ایک کارگو شپ کی ادائیگی تک کرنے کے موقف میں نہیں رہ گئی ہے ۔ عوام کیلئے اناج اور ادویات کا حصول تک بھی مشکل ہوگیا ہے ۔ عوام مشکل صورتحال میں حکومت سے ناراض ہو کر سڑکوں پر اتر آئے ہیں۔ عوامی ناراضگی اور برہمی کا ہی نتیجہ تھا کہ وزارت عظمی سے مہندا راجہ پکشے کو استعفی پیش کردینا پڑا ہے ۔ تمام داخلی تبدیلیوں کے باوجود سری لنکا میں حالات بہتر ہونے کے آثار دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔ اب سری لنکا کے بعد پاکستان کے حالات بھی بگڑتے نظر آرہے ہیں۔ گذشتہ چار برسوں میں عمران خان حکومت کی جانب سے حالات کو بہتر بنانے کے کئی اقدامات کا دعوی کیا گیا ہے لیکن ملک کی معیشت پر اس کے اثرات دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔ پاکستان میں جو نئی حکومت قائم ہوئی ہے اس کا بھی کہنا ہے کہ اسے انتہائی ابتر حالت میں معیشت کو سدھارنے کے اقدامات کرنے پڑ رہے ہیں۔ پاکستان میں پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں بھی بڑھ رہی ہے ۔ اب ملک کے کچھ پٹرول پمپس پر پٹرول دستیاب نہ رہنے کی شکایات مل رہی ہیں اور یہ دعوی بھی کیا جا رہا ہے کہ اے ٹی ایمس میں رقومات بھی دستیاب نہیں ہیں۔ یہ شکایت کسی اور نے نہیں بلکہ پاکستان کے سابق کرکٹ کپتان محمد حفیظ نے کی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ لاہور کے پٹرول پمپ پر پٹرول دستیاب نہیں ہے اور اے ٹی ایم میں رقم بھی نہیں نکل رہی ہے ۔ انہوں نے ٹوئیٹ کرتے ہوئے یہ صورتحال واضح کی اور اس پ سابق وزیر اعظم عمران خان اور موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف کو بھی ٹیگ کیا ہے ۔ محمد حفیظ نے سوال کیا کہ سیاسی فیصلوں کیلئے عام آدمی کیوں متاثر ہونا چاہئے ۔ پاکستان کی جو صورتحال فی الحال ہے اس میں محمد حفیظ کا سوال انتہائی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ سیاست نے ہی وہاں کے حالات ابتر کئے ہیں۔
فی الحال یہاں سوال پاکستان کی سیاست اور اس کے فیصلوں کے اثرات کا نہیں بلکہ ملک کی معیشت اورر وہاں جو حالات پیدا ہو رہے ہیں ان کا ہے ۔ پاکستان میں حالات انتہائی ابتر ہوتے اسی وقت نظر آئے تھے جب گذشتہ دنوں ملک میں بجلی کی انتہائی قلت پیدا ہوگئی تھی ۔ کئی شہروں میں بجلی کی طویل کٹوتی کا سلسلہ جاری ہے ۔ بعض مواقع پر تو یہاں تک دعوی کیا گیا کہ کراچی جیسے شہر میںیومیہ دس تا بارہ گھنٹے بجلی کی کٹوتی ہو رہی ہے ۔ عوام لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے پریشان ہیں۔ حکام کا کہنا تھا کہ موسم گرما میں زیادہ طلب کی وجہ سے یہ صورتحال پیدا ہوئی ہے ۔ تاہم یہ ایک ایسا عذر ہے جو مضحکہ خیز کہا جاسکتا ہے ۔ پاکستان کے پاس بجلی پیدا کرنے والے سب اسٹیشنوں کو سپلائی کرنے کیلئے فیول نہیں ہے ۔ اس کے پاس دیگر ترقیاتی پراجیکٹس کو جاری رکھنے کیلئے رقومات نہیں ہیں۔ حکومت کو اپنے کام کاج کو چلانے کیلئے بھی بیرونی ممالک یا مالیاتی اداروں سے قرض حاصل کرنا پڑ رہا ہے ۔ عالمی ادارے قرض کی اجرائی کیلئے شرائط عائد کر رہے ہیں اور شرائط ماننا حکومت کیلئے آسان نہیںہے ۔ شرائط کی عدم تکمیل پر قرض نہیں مل رہا ہے ۔ دہشت گردی سے متعلق ریکارڈ کی وجہ سے بھی مالیاتی اداروں کیلئے بھی مشکلات پیدا ہو رہی ہیں۔ اگر عالمی اداروں کی شرائط کو تسلیم کیا جاتا ہے تو عوام پر جو بوجھ عائد ہوگا عوام اس کو برداشت کرنے کے موقف میں بالکل نہیں ہیں۔
سعودی عرب نے ابھی پاکستان میں اپنے تین بلین ڈالرس کے ڈپازٹس کی مدت میں اضافہ کا اشارہ دیا ہے اس سے کچھ حد تک پاکستان کیلئے راحت مل سکتی ہے لیکن جس طرح سے وہاں مہنگائی نے ستم ڈھایا ہے یہ اندیشے پیدا ہونے لگے ہیں کہ پاکستان بھی سری لنکا کی طرح معاشی دیوالیہ کا شکار ہوسکتا ہے ۔ اشیائے ضروریہ کا حصول تک عوام کیلئے مشکل ہوتا جا رہا ہے ۔ خاص طور پر دیہی علاقوں کے عوام کی مشکلات میں کوئی کمی نہیں آ رہی ہے ۔ شہری عوام بھی مہنگائی کی وجہ سے پریشان ہیں۔ اگر فوری طورپر معیشت کو سدھارنے کیلئے فیصلے نہیں کئے گئے اور صرف سیاست اور اقتدار کی پرواہ کرنے کی روش ترک نہیں کی گئی تو پاکستان کے بھی سری لنکا کی طرح دیوالیہ کا شکار ہوجانے کے اندیشے زیادہ ہوجاتے ہیں۔