پولرائزیشن سے بی جے پی کو فائدے کے بجائے ہوگیا نقصان

,

   

بی جے پی لیڈران بھی اس بات کو تسلیم کررہے ہیں‘ ضرورت سے زیادہ جارحیت پسندی رہی نقصاندہ
نئی دہلی۔ اسمبلی الیکشن کے نتائج سے یہ صاف اشارہ مل رہا ہے کہ پولرائزیشن کا بی جے پی کی کوششو ں کو اسے فائدے کے بجائے نقصان ہوا ہے۔

جس طرح مسلم اکثریتی علاقوں کے اسمبلی حلقہ جات میں عام آدمی پارٹی کے امیدواروں کو بھاری جیت ملی ہے‘ اس سے صاف ہے کہ اقلیتی رائے دہندہ تو آپ کی حمایت متحد ہوکر ووٹ کئے ہیں‘ لیکن اکثریتی رائے دہندوں پر بی جے پی کی کوشش کا کوئی اثر نہیں دیکھا۔بی جے پی کو لگ رہاتھا کہ وہ پولرائزیشن کے ذریعہ دہلی میں بازی پلٹ سکتی ہے۔

انہیں محسوس ہوا کہ لوک سبھا الیکشن کی طرح ہی مسلم ووٹ عآپ اور کانگریس میں بٹ جائیں گے۔ بی جے پی نے اس کے ساتھ ہی شاہین باغ‘ سی اے اے‘ این آرسی کے موضوع کو بھی اپنی انتخابی مہم کی دھار بنائی۔

اس کا اثر یہ ہوا کہ اقلیتی ووٹروں میں کوئی بکھراؤ نہیں ہوا‘ اورسیدھے ایک ساتھ عآپ امیدواروں کی حمایت میں ووٹ چلے گئے۔

یہی وجہہ ہے کہ کانگریس کے ووٹ پچھلے اسمبلی الیکشن سے لگ بھگ ادھا ہوکر رہ گیا ہے۔خود بی جے پی لیڈران بھی یہ مان رہے ہیں کہ اس موضوع پر ضرورت سے زیادہ جارحانہ رویہ اپنانا اس کے لئے نقصاندہ ثابت ہوا ہے۔

اسے امید تھا کہ اگر اس کی یہ کوشش کامیاب ہوتی تو اکثریتی ووٹ اس کومل جائیں گے‘ جس سے وہ آپ کو شکست دے سکے گی۔لیکن ایسا ہوا نہیں۔

الٹا اقلیتی ووٹر بری طرح سح ناراض ہوگئے اور پرہلاد سنگھ سہانی‘ شعیب اقبال‘ امانت اللہ خان نے مسلم اکثریتی سیٹوں پر شاندار جیت درج کی‘ ان کی سیٹو پر ووٹوں کا بکھراؤ نہیں ہوا‘ لگا کہ بی جے پی کی جانب سے نشانہ بنایاجارہا ہے

۔مسلم اکثریتی والی سیٹوں پر جیت عام آدمی پارٹی امیدواروں کی جیت کاتناسب اگر دیکھیں گے تو آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ کسی بھی سیٹ پر 50فیصد سے کم ووٹ مذکورہ امیدواروں نے نہیں لئے ہیں۔

اوکھلا جیسی سیٹ پر اس کے امیدوار نے تو 74فیصد سے زیادہ ووٹ لئے ہیں۔

ان میں سے مصطفےٰ آباد کی سیٹ تو ایسی بھی ہے‘ جہاں پر پچھلی مرتبہ بی جے پی کوجیت اس لئے بھی ملی تھی کہ یہاں پر کانگریس او رعام آدمی پارٹی کے درمیان میں ووٹوں کی تقسیم ہوگئی تھی لیکن وہاں پر بھی بی جے پی کو اس مرتبہ ناامیدی ہی ہاتھ لگی اور عآپ کے امیدوار نے53.2 فیصد ووٹ لے کر کامیابی ملی ہے۔