پوپ فرانسیس کا دورہ

   

دنیا بھر میں اسلام کے خلاف نفرت کو اپنا ہتھیار بنانے والی طاقتوں کی سازشوں کے درمیانی ابوظہبی کے ولی عہد شہزادہ شیخ محمد بن زاید النہیان کی دعوت پر پوپ فرانسیس کا دورہ متحدہ عرب امارات تاریخی اہمیت کا حامل بن گیا ہے ۔ اس دورہ کا مقصد عالم اسلام اور عیسائیوں کے درمیان تعاون کو فروغ دیا جاکر تعلقات کو بہتر سے بہتر بنایا جائے ۔ رومن کیتھولک کے روحانی پیشوا پوپ فرانسیس کا یہ دورہ جزیرہ عرب کو رومن کیتھولک فرقہ کے کسی بھی روحانی پیشوا کا پہلا دورہ ہے ۔ فرانسیس کو اس بات کا بخوبی علم ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ رابطہ قائم رکھنا اہمیت کا حامل ہے ۔ اس دورہ کے پس منظر میں عالمی امن اور مشرق وسطی کی صورتحال کو بہتر بنانے کی مساعی بھی شامل ہے ۔ سعودی عرب کے بشمول خلیجی ممالک میں ہزاروں عیسائی کام کرتے ہیں ۔ پوپ فرانسیس کے اس دورہ سے ان ورکرس کے اندر نیا حوصلہ بھی پیدا ہونا یقینی ہے ۔ پوپ کے اس دورہ کو وسیع تر عالمی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے تناظر میں دیکھا جانا چاہئے ۔ مسلم ممالک میں عیسائی برادری کو بھی آزادانہ اور پرامن طریقہ سے اپنے مذہب پر عمل کرنے کی جس طرح آزادی دی گئی ہے یہی آزادی مسلمانوں کو بھی ماباقی دنیا کے تمام ممالک میں ملنی چاہیے ، لیکن مانیمار میں مسلمانوں سے جب یہ آزادی چھین لی جاتی ہے تو یہ عالمی توجہ کا باعث ہونا چاہیے ۔ لیکن یہاں مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و زیادتیوں کو نظر انداز کردیا جاتا ہے ۔ پوپ فرانسیس کے اس دورہ متحدہ عرب امارات سے ساری دنیا کو یہی پیام ملنا چاہئے کہ بین مذاہب کا آپسی اتحاد ہی امن کی اصل روح ہوگی ۔ پوپ فرانسیس نے اس موقع پر مشرق وسطی میں یمن میں جاری جنگ سمیت باغی تشدد کے واقعات کو ختم کرنے کے لیے زور دیا ہے وہیں انہوں نے ماباقی دنیا میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کی جانب توجہ نہیں دی ۔ تاہم انہوں نے مشرق وسطی کے مسلمانوں سے یہ کہا کہ وہ مقامی عیسائی باشندوں کے ساتھ بہتر سلوک کریں انہیں اپنے برابر کے شہری کے طور پر قبول کریں ۔ بلا شبہ ہر مذہب کا ہر شہری برابری کے شہری کا درجہ ملنے کا متمنی ہوتا ہے لیکن یہی معاملہ مشرق وسطی کے فلسطین میں دکھائی نہیں دیتا۔ ابوظہبی میں بین المذاہب کی کانفرنس کو ایک اچھی کوشش قرار دیا جاسکتا ہے کیوں کہ اس کانفرنس میں جہاں پوپ فرانسیس اور سنی مسلمانوں کے بڑے عالم و جامعہ الازہر کے سربراہ شیخ احمد الطیب کے درمیان بات چیت اور بعض امور پر باہمی معاہدے ایک نئی شروعات کی علامت ہے۔ متحدہ عرب امارات نے اس تاریخی دورہ کا اہتمام کرنے کے ساتھ عالمی سطح پر ایک پیغام جاتا ہے کہ اسلام دشمن عناصر کو اپنی سوچ بدلنی ہوگی ۔ پوپ نے متحدہ عرب امارات کو جس طریقہ اور جذبہ سے خراج تحسین پیش کیا ہے ۔ واقعی یہ بات قابل نوٹ ہے کہ متحدہ عرب امارات کی سرزمین بھائی چارہ اور مختلف تہذیبوں اور شہریت رکھنے والے عوام کے ملاپ کی جگہ ہے ۔ پوپ فرانسیس ہمیشہ اپنی تقاریر میں انسانی حقوق کے قوانین اور پناہ گزینوں کے مسائل پر زور دیتے رہے ہیں لیکن اس دورہ کے دوران انہوں نے روہنگیائی مسلمانوں کے بارے میں اور مانیمار حکومت کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا کوئی تذکرہ نہیں کیا لیکن جامعہ ازہر کے سربراہ ڈاکٹراحمد الطیب کے ساتھ ان کا عالمی امن اور مل جل کر رہنے کے لیے تاریخی ابوظہبی اعلامیہ پر دستخط کو کافی دلچسپی سے دیکھا جارہا ہے ۔ اس اعلامیہ کے ذریعہ عوام کے درمیان خاص کر انسانوں کے باہمی تعلقات کو مزید حوصلے بخشنے کی کوشش کی گئی ہے تاکہ وہ انتہا پسندی اور دہشت گردی کے علاوہ اس کے منفی اثرات کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار رہیں ۔ جامعہ الازہر کے سربراہ بھی عالمی سطح پر ایک معزز اور پر وقار شخصیت میں ان کے موقف خاص کر جدت پسندی ، روا داری ، عالمی اقدار اور ریاڈیکل انتہا پسندی کو مسترد کردینے ان کے سخت موقف کی زبردست ستائش کی جاتی رہی ہے ۔ متحدہ عرب امارات میں دنیا کے دو بڑے مذاہب کی اہم شخصیتوں کی یہ ملاقات انسانیت کے اندر امن و امان کے پیام کو عام کرنے کا اہم ذریعہ ہوگی ۔۔