پھر ترے حسیں وعدے یاد آگئے شائد

   

مرکزی بجٹ … وعدوں کا لالی پاپ
راہول گاندھی … استعفیٰ نہیں مقابلہ کریں

رشیدالدین
لوک سبھا انتخابات میں کامیابی کے لئے بی جے پی نے فروری میں خوش کن بجٹ پیش کرتے ہوئے رائے دہندوں کی تائید حاصل کرنے کی کوشش کی تھی۔ اب جبکہ انتخابات میں شاندار کامیابی حاصل ہوچکی ہے، بی جے پی عوام سے کئے گئے وعدوں کو ترجیحات میں شامل کرنے کے بجائے صنعتی گھرانوں کی خدمت کرنا چاہتی ہے۔ وزیر فینانس نرملا سیتا رمن نے بجٹ میں گاؤں ، غریب اور کسان کا نعرہ دیا لیکن مجموعی طور پر بجٹ نے عام آدمی اور پسماندہ طبقات کو مایوس کردیا ہے ۔ 2014 ء میں پہلی مرتبہ برسر اقتدار آنے کے بعد سے وزیراعظم نریندر مودی خود کو عام آدمی کا مسیحا ظاہر کر رہے تھے۔ انہوں نے سب کا ساتھ سب کا وکاس کا نعرہ لگایا اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی تھی کہ پانچ برسوں میں غریبوں کے اچھے دن واپس آئیں گے ۔ آمدنی میں اضافہ اور بیروزگار نوجوانوں کے لئے روزگار کی فراہمی جیسے وعدے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ بے گھر خاندانوں کو مکانات کی فراہمی کے سلسلہ میں گزشتہ پانچ برسوں کے اعداد و شمار بجٹ میں پیش کرتے ہوئے برسر اقتدار اور حلیف جماعتوں کی واہ واہی لوٹنے کی کوشش کی گئی ۔ نرملا سیتا رمن جب کبھی حکومت کا کوئی کارنامہ بیان کر رہی تھیں تو لوک سبھا میں این ڈی اے ارکان میزیں تھپتھپاکر ان کی حوصلہ افزائی کر رہے تھے۔ وزیراعظم نریندر مودی پیچھے نہیں رہے۔ انہوں نے وزیر فینانس کی ستائش کا کوئی موقع نہیں چھوڑا۔ پانچ برسوں میں حکومت کی ترجیحات تبدیل ہوگئیں اور شہری علاقوں کے عوام کو نظر انداز کرتے ہوئے گاؤں ، غریب اور کسان کا نعرہ لگایا گیا ۔ نئی حکومت کے قیام کے بعد اپنے پہلے خطاب میں نریندر مودی نے مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی پر مگر مچھ کے آنسو بہائے تھے لیکن بجٹ میں اقلیتوں کی تعلیمی ترقی کا کوئی منصوبہ شامل نہیں ہے۔ پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ دراصل غریب اور متوسط طبقات کیلئے خطرہ کی گھنٹی ہے۔ مہنگائی میں کمی کے نریندر مودی کے وعدے کہاں گئے۔ پٹرول اور ڈیزل کی اکسائیز ڈیوٹی میں اضافہ سے اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا۔ بجٹ میں مودی حکومت نے اعداد و شمار کے کھیل کے ذریعہ پھر ایک بار ہوائی قلعے تعمیر کئے ہیں۔ عام آدمی سے زیادہ بڑے صنعتی گھرانوں کی فکر کی گئی ہے۔ عوام نے لوک سبھا میں بھاری اکثریت کے ذریعہ مودی حکومت پر جو اعتماد ظاہر کیا ، اس کا صلہ مایوسی کی صورت میں ملا۔ عوام کو بجٹ سے کافی توقعات تھی ۔ خاص طور پر تنخواہ یاب ملازمین آمدنی پر ٹیکس میں مزید رعایت کی توقع رکھے تھے ۔ موجودہ بڑھتی مہنگائی کے پس منظر میں ملازمین کا یہ مطالبہ واجبی تھا لیکن حکومت نے مایوس کردیا۔ غیر منظم ورکرس کیلئے ماہانہ 3,000 روپئے پنشن کا اعلان حکومت کے لئے چیلنج سے کم نہیں۔ تلنگانہ اور آندھراپردیش خصوصی پیکیج کے سلسلہ میں بجٹ سے پرامید تھے لیکن حکومت نے دونوں ریاستوں کو مایوس کردیا ہے ۔ مودی حکومت کی پہلی میعاد کا نوٹ بندی اور جی ایس ٹی سے آغاز ہوا جس کے سبب عوام کی معاشی صورتحال درہم برہم ہوگئی تھی۔ اب دوسری میعاد میں پتہ نہیں نریندر مودی کے خفیہ منصوبہ میں کونسے اقدامات شامل ہیں۔ عام آدمی کو بجٹ سے بڑی امید ہوتی ہے لیکن نرملا سیتا رمن نے اردو شعر پڑھتے ہوئے تسلی دینے کی کوشش کی ہے ۔ انہوں نے تلگو داں ہونے کے باوجود یہ شعر پڑھا۔
یقین ہو تو کوئی راستہ نکلتا ہے
ہوا کی اوٹ بھی لے کر چراغ جلتے ہیں

صرف یقین کے اظہار سے مسائل حل نہیں ہوتے بلکہ عملی اقدامات کی ضرورت پڑتی ہے ۔ بجٹ کے ذریعہ وعدوں کا لالی پاپ عوام کو دینے کی کوشش کی گئی لیکن اچھے دن کا صرف یقین ظاہر کیا جارہا ہے۔ نریندر مودی نے انتخابی مہم اور پھر پارلیمنٹ میں خطاب کے دوران اپنی لفاظی اور زور بیانی کا بھرپور مظاہرہ کرتے ہوئے عوام پر جیسے جادو کردیا تھا۔ وعدوں کی تکمیل بھلے ہی نہ ہو لیکن مودی کا انداز بیان عوام کے دلوں کو موہ لیتا ہے۔ اسی راستہ پر نرملا سیتا رمن بھی دکھائی دے رہی ہیں جنہوں نے اردو شعر کا سہارا لے کر عوام کو مطمئن کرنے کی کوشش کی ہے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب کبھی کسی کو اپنے دل کی بات عوام تک پہنچانی ہو تو وہ اردو اشعار کا سہارا لینے پر مجبور ہوتا ہے۔ نریندر مودی پارلیمنٹ میں بارہا اردو اشعار کے ذریعہ ایوان کی واہ واہی لوٹتے رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں انہوں نے مرزا غالب سے منسوب کرتے ہوئے ایک شعر پڑھا جو کہ حقیقت میں مرزا غالب کا نہیں تھا۔ اسے اردو کی بدقسمتی کہیئے یا پھر کچھ اور کہ حکمرانوں کو اپنی ضرورت کے وقت اردو کی یاد تو آتی ہے لیکن اس کی ترقی کا خیال نہیں آتا۔ لوک سبھا میں صدر جمہوریہ کے خطبہ پر تحریک تشکر پر مباحث کے دوران کئی ارکان نے اردو کے اشعار کے ذریعہ اپنی بات میں وزن پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ کاش ان تمام ارکان کو سیاسی وابستگی سے بالاتر ہوکر اردو کی ترقی کا خیال آئے ۔ کئی غیر اردو داں اس بات کو تسلیم کرچکے ہیں کہ اردو میں جس خوبصورت پیرائے میں دل کی بات پہنچائی جاسکتی ہے ، کسی اور زبان میں یہ ممکن نہیں ۔
کانگریس کی قیادت کے مسئلہ پر ایک ماہ سے جاری غیر یقینی اور تعطل کا خاتمہ تو ہوا لیکن اس سے کانگریس کا بحران مزید گہرا ہوچکا ہے ۔ راہول گاندھی صدارت سے استعفیٰ پر اٹل ہیں اور نئے صدر کی تلاش کا عمل شروع ہوچکا ہے۔ لوک سبھا انتخابات میں پارٹی کی شکست کے بعد راہول گاندھی نے 25 مئی کو استعفیٰ کا اعلان کردیا تھا۔ ورکنگ کمیٹی کی جانب سے استعفیٰ مسترد کئے جانے کے باوجود وہ فیصلہ پر قائم رہے۔ راہول کو منانے کیلئے ہر طرح کی کوشش کی گئی لیکن کانگریس کے شہزادہ ماننے تیار نہیں تھے۔ کانگریس کی تاریخ میں شائد پہلی مرتبہ اس طرح کی غیر یقینی صورتحال پیدا ہوئی کہ ایک ماہ سے زائد عرصہ تک قائدین اور کارکن یہ نہیں جانتے تھے کہ ان کا صدر کون ہے اور آئندہ صدر کون رہے گا۔ عوام بھی ان ڈرامائی تبدیلیوں کو حیرت سے دیکھتے رہے۔ بسا اوقات یہ سمجھ سے باہر تھا کہ واقعی راہول گاندھی اپنے فیصلہ میں سنجیدہ ہیں یا پھر محض سیاسی ڈرامہ بازی ہے۔ ظاہر ہے کہ سیاسی پارٹی میں کوئی بھی قدم سیاسی مقصد براری کے بغیر نہیں ہوسکتا۔ راہول گاندھی نے پارٹی کی شکست سے مایوس ہوکر یا پھر جلد بازی میں سہی جو بھی فیصلہ کیا ، وہ کانگریس پارٹی کی صحت کے لئے ٹھیک نہیں تھا ، وہ بھی ایسے وقت جبکہ بی جے پی کو لوک سبھا میں شیطانی اکثریت حاصل ہوئی ہے اور وہ اپوزیشن کو ختم کرنے کے درپہ ہے۔ قومی پارٹی کا ایک ماہ سے زائد عرصہ تک Headless یعنی بے سر رہنا عوام میں مذاق کا موضوع بن چکا ہے ۔ راہول گاندھی نے پارلیمانی پارٹی لیڈر کے عہدہ سے بھی انکار کیا اور دوسری طرف شکست کے بعد بکھری ہوئی اور منتشر پارٹی کی شیرازہ بندی کے بجائے ذمہ داریوں سے فرار کی کوشش کی ہے۔ ظاہر ہے کہ جنگ میں شکست کے بعد سپہ سالار اور کمانڈر بھی فرار کا راستہ اختیار کرے تو فوج کے حوصلوں کا پست ہونا یقینی ہے۔ اس نازک گھڑی میں راہول گاندھی کو پارٹی کیڈر کے ساتھ کندھے سے کندھا ملاکر عوامی مسائل کے حل کے لئے جدوجہد کرنا چاہئے ۔ رائے دہی میں حصہ لینے والے عوام نے صرف بی جے پی کو ووٹ نہیں دیا بلکہ ملک بھر میں کانگریس کو بھی ووٹ حاصل ہوئے۔ کانگریس کی تائید کرنے والے رائے دہندوں کے دکھ درد میں کون شریک ہوگا۔ پارٹی صدارت سے استعفیٰ اور وہ بھی موجودہ حالات میں ، میدان سے قدم پیچھے ہٹانے کے مترادف ہے۔ نہ صرف بی جے پی بلکہ سنگھ پریوار کے حوصلے بلند ہوں گے اور سیکولر طاقتیں کمزور ہوں گی۔ آخر کون ہے راہول گاندھی کے مشیر جو غلط مشوروں کے ذریعہ پارٹی اور سیکولر طاقتوں کو کمزور کرنا چاہتے ہیں۔ جہاں تک شکست کی ذمہ داری کا سوال ہے، کسی ایک کو ہرگز ذمہ دار قرار نہیں دیا جاسکتا۔ کامیابی ہو یا ناکامی اجتماعی ذمہ داری ہوتی ہے۔ راہول گاندھی نے اقل ترین آمدنی ضمانت اسکیم کو متعارف کیا تھا لیکن بنیادی سطح پر اسکیم پہنچانے میں ناکامی ہوئی ۔ بی جے پی حکومت کی ناکامیوں اور اسکامس کو بے نقاب کرنے کی کوشش کی گئی لیکن نریندر مودی کی لفاظی اور امیت شاہ کی حکمت عملی نے الزامات کو بے اثر کردیا۔ راہول گاندھی نے تمام ریاستوں میں طوفانی مہم چلائی ۔ اندرا گاندھی اور راجیو گاندھی کا مضبوط بیاک گراؤنڈ رکھنے کے باوجود ووٹ کے لئے پرکشش ثابت نہ ہوسکے اور عوام نے انہیں قبول نہیں کیا ۔ راہول گاندھی کو ناتجربہ کار مشیروں کے خول سے نکلنا ہوگا۔ انہوں نے دادی اندرا گاندھی کی تاریخ نہیں پڑھی ورنہ اس طرح پارٹی کو منجھدار میں چھوڑ کر کنارے سے تماشہ نہ دیکھتے۔ 1977 ء میں ایمرجنسی کے بعد شکست کے باوجود 1980 ء میں دوبارہ اقتدار حاصل کیا۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ گاندھی خاندان کے فرد کے علاوہ کوئی بھی پارٹی کو منظم اور متحرک نہیں رکھ سکتا۔ سابق میں جب کبھی گاندھی خاندان سے ہٹ کر قیادت دی گئی تو پارٹی کا کیا حال ہوا ہر کوئی واقف ہے۔ جہاں تک استعفیٰ کا سوال ہے ، پرینکا گاندھی نے عہدہ سے استعفیٰ نہیں دیا ، انہیں اترپردیش کی ذمہ داری دی گئی تھی لیکن وہ اپنے خاندانی حلقہ امیٹھی کو بچانے میں ناکام رہیں جہاں راہول گاندھی کو شکست ہوئی۔ سیاسی مبصرین کے مطابق ہریانہ ، مہاراشٹرا اور جھارکھنڈ کے اسمبلی انتخابات کے پیش نظر راہول گاندھی نے استعفیٰ پر اٹل رہنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ ایک عام کارکن کی طرح مہم چلا سکیں۔ تینوں ریاستوں کے نتائج کے بعد کانگریس کی حقیقی تصویر سامنے آئے گی۔ پارٹی کی صدارت کے لئے تجربے اور سینیاریٹی کے حساب سے منموہن سنگھ کے علاوہ کوئی اور غیر متنازعہ شخصیت نہیں ہے جس کی قومی سطح پر شناخت ہو۔ مودی حکومت کے بجٹ پر راز الہ آبادی کا یہ شعر یاد آگیا ؎
پھر ترے حسیں وعدے یاد آگئے شائد
ہم نے آرزوؤں کی بھیڑ پھر لگالی ہے