پہلو خان کا قاتل کون؟

,

   

اس سوال کی اہمیت یکم اپریل2017کو نہیں تھاجب راجستھان کے شہر الور میں مبینہ گاؤ رکشکوں کی بھیڑ نے پہلو حان کو گھیر کر غیرانسانی طریقے سے ان کی پٹائی کی تھی‘

اس سوال کی اہمیت اس وقت بھی نہیں تھی جب زخمو ں کی تاب نہ لاکر دو دنوں بعد پہلو خان کا انتقال ہوگیاتھا‘

کیونکہ اس معاملے کا ویڈیوموجو دتھا’عام خیال یہی تھا کہ عدالت کو ملزمین کے خلاف بس فیصلہ سنانا ہے۔

دو برس بعد14اگست 2019کو الور کی ضلع عدالت نے فیصلہ سنادیا۔اس نے سبھی چھ ملزمین کوبری کردیا۔

پہلو خان کے قتل کے معاملے میں جو نو لوگ ملزم بنائے گئے تھے‘

ان میں تین نابالغ ہیں‘ اس لیے معاملہ انہیں چھ ملزمین تک تھا۔

عدالت نے موقع واردات کے ویڈیوکو ثبوت نہیں مانا جبکہ پہلو حان کے وکیل اختر حسین کو کہنا ہے کہ ’رویندر جب گزرہاتھا‘ تب اس نے ایک بھیڑ کو پہلو حان کو پیٹتے ہوئے دیکھا۔

وہ ویڈیوبناتے کے لئے رک گیا۔ وہ قبول کرچکا ہے کہ اسی نے ویڈیو بنایاتھا۔ اس کی گواہی یہ بات ثابت کرتی ہے کے ویڈیو تصدیق شدہ ہے۔

وکیل کی صرف دلیل دینی ہوتی ہے او رمعاملہ کے تعلق سے اختر حسین نے بھی اپنی دلیل دی ہے گر فیصلہ عدالت کو سنانا ہوتا ہے او راس کاانحصار عدالت پر ہی ہوتا ہے کہ وہ کسی ایسے تصدیق شدہ ویڈیوکو جس کی بنانے والے موجود ہو چاہئے تو ثبوت نہ مانے اور ملزمین کو بری کردے۔

ایسی صورت میں پہلو خان کے بیٹے ارشاد کے اسسوال کی اہمیت بڑھ جاتی ہے کہ آخر اس کے والد کو اس نے مارا؟۔ اسسوال کا جواب دینے کی ذمہ داری الور پولیس پر ہے لیکن راجستھان کی گہلوت حکومت کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ پولیس کو اس کے فرض کا احساس دلائے‘

کیونکہ انصاف مانگا جائے اور انصاف نہ ملے تو یہ نظام عدل پر سوالیہ نشان لگادیتا ہے۔ ماب لنچنگ کی وجہہ سے ایک آدمی کا قتل ہوا اور اس قتل کی وجہہ انصاف میں یقین رکھنے والوں کو مایوس ہونا پڑے یہ ٹھیک نہیں۔

پہلو خان کے بیٹے ارشاد کا کہنا ہے کہ ’مجھے پوری امید تھی کہ ملزمین کو سزائے عمر قید نہ سہی کم سے کم بیس سال کی قید ملے گی لیکن اس فیصلے نہ تو ہم لوگوں کوحیران کردیا۔ پولیس ثبوت کیوں نہیں جٹاسکی؟۔کیا میرے والد خود سے مرے؟۔

ارشاد کو اپنے سوالوں کاجواب ملنا چاہئے۔

یہ بنیادی سوال ہیں۔ ارشاد کی اطمینان بخش جواب دینے کے لئے گہلوٹ حکومت کویہ سوال الور پولیس سے کرناچاہئے کہ وہ ثبوت نہیں نہیں یکجا کرسکی۔

سکیولرزم کی دہائی دینے والی کانگرنس اب یہ نہیں کہہ سکتی کہ راجستھان میں بی جے پی کی حکومت ہے‘ اس لئے ثبوت یکجا کرسکی۔ کیساگر لوکل تھانہ کی سطح پر مضبوط نہیں ہوتا تو عدالت سے انصاف چاہنے والو کو مایوس کا سامنا کرنا ہی پڑا تھا۔

پہلو خان کے قتل کے تمام ملزمین کوعدالت نے بری کردیاہے مگر وہ الور کے لوکل تھانے سے اگر یہی سوال کرلیتی کہ’آخری پہلو خان کو مارا کس نے؟‘ تو پولیس کو ذمہ داری محسوس کرنے پر مجبور ہوناپڑتا‘ مقتول کے بیٹے کو اطمینان ہوجاتا لیکن عدالت خود ذمہ دار ہے۔

اسے ذمہ داری کو احساس دلانا مناسب نہیں۔ عدالت جانتی ہے کہ کیاکہناہے او رکیا نہیں کیاپوچھنا ہے اور کیانہیں پوچھنا۔ ارشاد بے چین ہے کہ اس کے پاس اپنے والد کے قتل سے متعلق سوال تو بہت ہیں لیکن جواب ایک نہیں ہے۔

امیدرکھنی ہے کہ اس کے پاس اپنے والد کے قتل سے متعلق سوال تو بہت ہیں لیکن جواب ایک نہیں ہے۔

امید رکھنی چاہئے کہ ہائیکورم جیں اس معاملے کے جانے کے بعد ارشاد کو اس کے تمام سوالوں کے جواب بھی مل جائیں گے اوراس کی بے چینی بھی دور ہوجائے گی۔ پہلو خان کے لئے انصاف چہانے والوں کو بھی مایوسی نہیں ہوگی!