پی ایم کئیر فنڈ ‘ جانچ سے ڈر کیوں؟

   

پی ایم کئیر فنڈ ‘ جانچ سے ڈر کیوں؟
کورونا وائرس کی وباء کے شدت اختیار کرجانے کے بعد وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب سے ملک گیر سطح پر پی ایم کئیر فنڈ قائم کیا گیا تھا اور عوام اور خانگی شعبہ سے اس میں عطیات کی اپیل کی گئی تھی ۔ وزیر اعظم کی اپیل پر اور کورونا وباء کی شدت اور عوام کے مسائل کو دیکھتے ہوئے اس میں فراخدلانہ عطیات دئے گئے ۔ ہر کسی نے حسب استطاعت اس میں تعاون کیا اور حکومت کا دعوی ہے کہ اس رقم سے کورونا وباء کے دوران غریب عوام کی اور متاثرین کی ممکنہ مدد کی گئی ہے ۔ تاہم اس فنڈ کے تعلق سے مختلف گوشوں کی جانب سے کچھ شبہات کا اظہار بھی کیا جا رہا ہے ۔ یہ الزامات عائد کئے جا رہے ہیں کہ حکومت کی جانب سے اس فنڈ کی رقومات کا بیجا استعمال کیا گیا ہے ۔ اس فنڈ میں جمع ہونے والی رقومات کو انتخابی مقاصد کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے ۔ اس کے علاوہ یہ بھی الزامات عائد کئے جا رہے ہیں کہ اس فنڈ میں چین اور چین کی افواج نے بھی خطیر رقومات فراہم کی ہیں ۔ یہاں تک بھی الزام عائد کئے جا رہے ہیں کہ چینی حکومت اور فوج نے گلوان وادی کا سودا کرنے کیلئے یہ فنڈز اور رقومات فراہم کئے ہیں۔ حکومت کی جانب سے اس طرح کے الزامات کی مسلسل تردید کی جا رہی ہے لیکن اس فنڈ کی جانچ کے تعلق سے حکومت نے کبھی اتفاق نہیں کیا اور نہ ہی اس تعلق سے کئے جانے والے سوالات کا سنجیدگی سے جواب دینے کی کوشش کی گئی ۔ کانگریس قیادت کی جانب سے چینی حکومت اور فوج کی جانب سے عطیات دئے جانے کے الزامات کے بعد عوام میں بھی اس تعلق سے سوال پیدا ہونے لگے ہیں اور یہ یہ پوچھا جا رہا ہے کہ آیا واقعی ایسا ہوا ہے ؟ لیکن حکومت یا اس کے ذمہ داروں کی جانب سے کوئی وضاحت نہیں کی جا رہی ہے اور نہ ہی ملک کے عوام کو اس فنڈ کے عطیہ دہندگان اور اخراجات کے تعلق سے کچھ بتایا جا رہا ہے ۔حکومت حالانکہ اپنے ہر کام کیلئے عوام کے سامنے اور پارلیمنٹ میں جوابدہ ہے لیکن کسی نہ کسی بہانہ کے ذریعہ پی ایم کئیر فنڈ کی تفصیل بتانے سے انکار کیا جا رہا ہے ۔
اب پارلیمنٹ کی کمیٹی پی اے سی کی جانب سے اس مسئلہ پر غور کرنے اور تحقیقات کرنے کیلئے پہل کی گئی تو اس کمیٹی میں شامل بی جے پی کے ارکان نے اس کی مخالفت کی اور اتفاق رائے ہونے کا موقع فراہم نہیں کیا ۔ کانگریس کے رکن آدھیر رنجن چودھری اس کمیٹی کے صدر نشین ہیں اور انہوں نے پی ایم کئیر فنڈ کی تحقیقات پی اے سی کی جانب سے کروانے کی کوشش کی لیکن بی جے پی ارکان ایسا لگتا تھا کہ اجلاس میں آئے ہی اس ہدایت کے ساتھ تھے کہ پی اے سی کی اس کوشش کو ناکام بنادیا جائے ۔ حالانکہ آدھیر رنجن چودھری نے ارکان سے اپیل کی تھی کہ وہ اپنے ضمیر کی آواز پر فیصلہ کریںا ور اس اہم ترین مسئلہ پر اتفاق رائے پیدا کی جانی چاہئے لیکن بی جے پی ارکان نے اپنی قیادت کی ہدایت پر ایسا ہونے کا موقع نہیں دیا ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس اہم ترین مسئلہ پر اتفاق رائے کیوں نہیں ہونے دیا جا رہا ہے ؟ ۔ حکومت یا پھر بی جے پی اس فنڈ سے متعلق تحقیقات اور حقائق کو منظر عام پر لانے سے گریزاں کیوں ہیں ؟ ۔ کیوں اپوزیشن کے الزامات کی نفی نہیں کی جا رہی ہے اور کیوں عوام میں پیدا ہونے والے سوالات کے جواب نہیں دئے جا رہے ہیں ؟ ۔ پی اے سی میں تو یہ جواز پیش کرنے کی کوشش کی گئی کہ پارلیمنٹ نے اس فنڈ کا قیام عمل میں نہیں لایا تھا اس لئے پی اے سی کے ذریعہ تحقیقات نہیں کروائی جاسکتیں۔ لیکن حکومت کا یہ بھی موقف ہے کہ کسی آزادانہ ادارہ کے دریعہ تحقیقات کروائی جاسکتی ہیں ۔ لیکن ایسا ہو نہیں رہا ہے ۔
جس طرح بی جے پی کے کچھ قائدین دعوی کر رہے ہیں کہ پی ایم کئیر فنڈ میں کوئی خرد برد نہیں ہوا ہے اور اس میں کوئی اسکام بھی نہیں ہے تو پھر تحقیقات سے گریز کیوں کیا جا رہا ہے ؟ ۔ آخر تحقیقات سے اجتناب کی وجہ کیا ہوسکتی ہے ؟ ۔ اس فنڈ میں ملک کے عوام اور خانگی شعبہ نے خطیر رقومات فراہم کی ہیں۔ عوام کو اس کی تفصیل بتانے میں کوئی حرج نہیں ہونا چاہئے ۔ ہوسکتا ہے کہ اپوزیشن کے الزامات غیر درست بھی ہوں تاہم حکومت کو اس کی سچائی کو بہتر انداز میں عوام کے سامنے لانے کی ضرورت ہے ۔ اس سے حکومت کی امیج بھی بہتر ہوگی اور عوام میں جو سوالات پائے جاتے ہیں ان کا ازالہ بھی ہوسکتا ہے ۔
کورونا علاج ‘ آروگیہ شری میں کیا جائے
کورونا وائرس نے تلنگانہ میںانتہائی شدت اختیار کرلی ہے اور ہزاروں افراد روزآنہ اس سے متاثر ہوتے جارہے ہیں۔ سینکڑوں افراد کو دواخانوں سے رجوع ہونے میں مشکلات پیش آ رہی ہیں۔ خانگی دواخانوں میں حد درجہ لوٹ مار چل رہی ہے ۔ لاکھوں روپئے لوٹے جا رہے ہیں اور پھر نعشیں حوالے کرنے سے بھی انکار کیا جا رہا ہے ۔ اس صورتحال میں عوام کو مشکلات سے بچانے اور انہیں راحت پہونچانے میں ریاستی حکومت ناکام نظر آتی ہے ۔ حکومت کی جانب سے دعوے تو بہت کئے جا رہے ہیں لیکن عمل بالکل ندارد ہے ۔ خانگی دواخانوں کیلئے اخراجات حکومت نے طئے تو کردئے لیکن کسی بھی دواخانے میں اس پر عمل نہیں کیا جا رہا ہے اور عوام کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالنے کا سلسلہ جاری ہے ۔ ایسے میں پڑوسی ریاست آندھرا پردیش نے ایک بہترین مثال پیش کی ہے اور کورونا کے علاج کیلئے جہاں خانگی دواخانوں کیلئے فیس کا ڈھانچہ طئے کردیا ہے وہیں اس کا احاطہ آروگیہ شری اسکیم کے تحت بھی کردیا ہے ۔ اس سے خانگی دواخانوں کی لوٹ مار پر کنٹرول کیا جاسکتا ہے ۔ تلنگانہ میں بھی آروگیہ شری کے تحت اس کا علاج کرنے کی ضرورت ہے لیکن ریاستی حکومت اس سے انکار کر رہی ہے ۔ حالات کو دیکھتے ہوئے حکومت کو کورونا کا علاج آروگیہ شری کے تحت کرنے سے اتفاق کرنا چاہئے ۔