چیف منسٹروں سے وزیراعظم کی مشاورت

   

اب یہ عالم ہے کہ غم کی بھی خبر ہوتی نہیں
اشک بہہ جاتے ہیں لیکن آنکھ تر ہوتی نہیں
چیف منسٹروں سے وزیراعظم کی مشاورت
وزیراعظم نریندر مودی نے کورونا وائرس پر قابو پانے کے لیے کئے جانے والے اقدامات اور اس کے نتائج پر وسیع تر تبادلہ خیال کرنے کے لیے آج چوتھی مرتبہ ملک کی ریاستوں کے چیف منسٹرس سے ویڈیو کانفرنس کی ۔ 25 مارچ سے لاک ڈاؤن نافذ ہے ۔ کئی ریاستوں نے اپنے طور پر بھی لاک ڈاؤن میں توسیع یا نرمی کا فیصلہ کیا ہے ۔ ایسے میں جاریہ لاک ڈاؤن کو مرحلہ وار طور پر ختم کیا جائے یا اس میں توسیع دی جائے ۔ اس مسئلہ پر وزیراعظم مودی نے چیف منسٹروں سے مشاورت کی ، لیکن اس مرتبہ بعض چیف منسٹرس نے کانفرنس سے دوری اختیار کی ۔ چند ریاستوں کے چیف منسٹروں نے اپنی رائے میں لاک ڈاؤن کو مرحلہ وار طور پر ہٹانے کی تجویز پیش کی ۔ وزیراعظم سے مشاورت میں اس مرتبہ چیف منسٹروں کی سرد مہری کی اصل وجہ یہ ہے کہ گذشتہ کے ویڈیو کانفرنس میں بعض ریاستوں کے چیف منسٹروں کو اپنی بات رکھنے کا موقع نہیں دیا گیا اور جن چیف منسٹروں نے تجاویز پیش کی تو اس پر مرکز نے دھیان نہیں دیا ۔ مغربی بنگال کی چیف منسٹر ممتا بنرجی ، کیرالا کے چیف منسٹر وجین اور تلنگانہ کے چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کی تجاویز کو نظر انداز کردیا گیا تھا ۔ 21 مارچ کو وزیراعظم مودی نے چیف منسٹروں سے وائرس پر قابو پانے کے اقدامات پر تبادلہ خیال کیا اور دو دن بعد ہی 24 مارچ کو 21 روز کا لاک ڈاؤن کا اعلان کیا ۔ اس اچانک اعلان سے سب سے زیادہ مسائل کا ورکرس اور روزانہ کی اجرت پر کام کرنے والے میگرنٹس مزدوروں کو سامنا کرنا پڑرہا ہے ۔ چیف منسٹروں نے یہی مسئلہ اٹھایا ہے کہ لاک ڈاؤن کے جاری رکھنے سے ملک کے غریب عوام اور مزدور طبقہ فاقہ کشی کا شکار ہوجائے گا ۔ لاک ڈاؤن کو 3 مئی کے بعد مرحلہ وار طریقہ سے ہٹادیا جانے پر واضح صورتحال سامنے نہیں آئی ہے ۔ بعض ریاستوں کے چیف منسٹروں نے 3 مئی کے بعد بھی لاک ڈاؤن جاری رکھنے پر زور دیا ۔ اس طرح کے غیر منصوبہ جاتی لاک ڈاؤن سے مسائل ہی پیدا ہورہے ہیں ۔ اس میں دورائے نہیں کہ حکومت نے ضروری اشیاء کی سربراہی کو یقینی بنایا ہے ۔ لیکن اصل سوال یہ ہے کہ ان ضروری اشیاء کی خریداری کے لیے عوام کے پاس پیسہ بھی ہونا ضروری ہے ۔ روزانہ کی مزدوری کرنے والوں کے پاس جب روزی ہی نہیں ہے تو ضروری اشیاء کی سربراہی سے صرف امیر طبقہ مستفید ہورہا ہے ۔ غریبوں کے لیے خاص میگرنٹس مزدوروں کے لیے حکومت نے کوئی بندوبست ہی نہیں کیا ہے ۔ مرکز نے ان ورکرس کی ذمہ داری ریاستوں کے حوالے کردی ہے ۔ بعض ریاستوں میں میگرنٹس ورکرس کا خیال رکھا جارہا ہے لیکن یہ ان غریبوں کے لیے اطمینان کا باعث ہی نہیں ہے ۔ مرکز کی ذمہ داری کا جہاں تک سوال ہے یہ حکومت معاشی ابتری کو سنبھالنے کے انتظامات سے بہت ہی دور دکھائی دیتی ہے ۔ بظاہر ساری دنیا میں ہندوستان کی کوششوں کی ستائش کی جارہی ہے کہ اس نے عوام کے روزگار سے زیادہ سے زیادہ ان کی زندگیوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے ٹھوس اور جرات مندانہ اقدامات کرتے ہوئے لاک ڈاؤن پر سختی سے عمل کیا ہے ۔ وقت کا تقاضہ تو یہ ہے کہ اس لاک ڈاؤن سے گرتی معیشت کو بچانے کے لیے یہ اقدامات کئے جائیں اور ملک کے کئی علاقوں میں روزگار کھولنے کی اجازت دی جائے ۔ جیسا کہ دنیا کے بعض ملکوں نے بلکہ خود چین کے شہر وہان میں حکومت نے لاک ڈاؤن ختم کردیا ہے اور عوام کی معاشی ضروریات کو بحال کردیا ہے ۔ ہندوستان میں بھی جہاں کورونا وائرس کا کوئی کیس نہیں ہے لاک ڈاؤن ختم کردیا جانا چاہئے ۔ دیگر ملکوں کی حکومتوں نے عوام کے لیے معاشی راحت پیاکیج جاری کئے ہیں ۔ کئی ملکوں میں زائد از 14 کھرب ڈالر کے معاشی اقدامات کا اعلان کیا جاچکا ہے لیکن ہندوستان میں اس طرح کا کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا ۔ سارا بوجھ ریاستوں کے کندھوں پر ڈال دیا گیا ہے ۔ مرکز کی بعض نادانیوں کا سلسلہ طویل مدت تک اس ملک کی معیشت کو نقصان پہونچاتا رہے گا ۔ جب کورونا کا عذاب ساری دنیا کو پریشان کئے ہوئے ہے تو حکومت ہند کو بھی چاہئے تھا کہ وہ اپنے عوام کی جانوں کے ساتھ ساتھ ان کی معیشت کی فکر کرے ۔ حکومت تو لاک ڈاؤن کرنے میں پہل کی اور اس پر سختی سے عمل آوری بھی ہورہی ہے ۔ اس پر ریاستی چیف منسٹروں کی رائے کو زیر غور لاتے ہوئے مرحلہ وار طور پر نرمی لاکر لاکھوں غریب عوام کے لیے راحت کا بھی انتظام کیا جانا ضروری ہے۔۔