چین کو لال آنکھیں دکھانا ضروری

   

ہندوستان اور چین کے مابین سرحدی کشیدگی اب ایسا لگتا ہے کہ شدت اختیار کرتی جا رہی ہے ۔ ہماری حکومت کی جانب سے بارہا یہ یقین دہانی کروائی جا رہی ہے کہ چین کی سرحد پر سب کچھ ٹھیک ہے اور مذاکرات شروع کردئے گئے ہیں اور مسائل کو حل کرلیا جائیگا ۔ یہ کہا گیا تھا کہ چین نے لداخ کے علاقہ میں دو کیلومیٹر تک خود کو پیچھے بھی ہٹالیا ہے ۔ چین کی اس واپسی کو ہندوستان کی ایک بڑی کامیابی کے طور پر پیش کیا گیا تھا ۔ تاہم ایسا لگتا ہے کہ سرحد پر جو صورتحال ہے اس کو حقیقی معنوں میں ملک اور عوام کے سامنے پیش نہیں کیا جا رہا ہے اور صرف زبانی تیقنات دئے جا رہے ہیں۔ گذشتہ چار دن سے مسلسل کہا جا رہا تھا کہ سرحد پر سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہے اور چین کے ساتھ بات چیت میں پیشرفت بھی ہو رہی ہے تاہم اچانک آج ایک خبر آئی ہے کہ ایک کرنل اور دو فوجی شہید ہوگئے ہیں۔ یہ شہادت چینی فوج کے ساتھ جھڑپ اور فائرنگ کے تبادلے میں ہوئی ہے ۔ صورتحال سے واقفیت رکھنے والے سمجھ سکتے ہیں کہ اچانک ہی فائرنگ شروع نہیں ہوئی ہوگی ۔ یہ تو سبھی جانتے ہیںکہ سرحد پر کشیدگی چل رہی تھی اور فائرنگ اور ہمارے کرنل و دو فوجیوں کی شہادت اسی کشیدگی کا نتیجہ ہے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر حکومت کے دعووں کے مطابق گذشتہ چند دنوں سے سرحد پر کشیدگی میں کمی آئی تھی اور سب کچھ ٹھیک ٹھاک تھا تو آج اچانک ایسا کیا ہوگیا کہ فائرنگ بھی ہوگئی اور ہمیں تین شہادتوں کو برداشت کرنا پڑ رہا ہے ۔ چین کے عزائم اور اس کی حرکتیں سارے ہندوستان پر عیاں ہیں اور مسلسل چین کی جانب سے سرحدات پر جارحانہ تیور دکھائے جاتے ہیں ۔ ہندوستان کی سرحد ہی میں ہندوستانی سپاہیوں کی نقل و حرکت کو روکنے کی کوشش کی جاتی ہے اور ہمارے پراجیکٹس پر اعتراض تک کیا جاتا ہے ۔ ہندوستان کی سرحد کے اندرونی علاقوں میںچین اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے ۔ ہماری سرزمین پر چین کی جانب سے تعمیرات تک کئے جانے کی اطلاعات ہیں اور اب تو ہماری فوجی شہید بھی ہو رہے ہیں ایسے میں چین کو روکنا بہت ضروری ہوگیا ہے ۔
ہمارے وزیر اعظم نریندر مودی جس وقت گجرات کے چیف منسٹر تھے اور چین کے ساتھ سرحد پر کشیدگی ہوتی تو کہتے تھے کہ چین کو لال آنکھوں سے جواب دیا جانا چاہئے ۔ اب جبکہ خود وہ وزیر اعظم ہیں اور چین کی سرحد پر نہ صرف کشیدگی ہے بلکہ ہمارے فوجی بھی شہید کردئے گئے ہیں تو اب زیادہ ضرورت ہے کہ چین کو لال آنکھوں کے ساتھ جواب دیا جائے ۔ ایسا تاثر پیدا ہونے کا موقع نہیں دیا جانا چاہئے کہ نریندر مودی کی تقریر اپوزیشن جماعت کے لیڈر کی تقریر تھی اس کے کوئی معنی نہیں تھے ۔وزیرا عظم نے کہا تھا کہ ان کا 56 انچ کا سینہ تھا ۔ یہ سینہ وہ ہندوستانی عوام کو دکھانے سے گریز نہیں کرتے ہیں لیکن اب ضرورت اس بات کی ہے کہ اسی 56 انچ کے سینہ کو چین کو دکھایا جائے ۔ اس کو منہ توڑ جواب دیا جائے ۔ چین کو اس کے عزائم اور ناپاک ارادوں سے باز رکھنے کیلئے ہر ممکنہ اقدامات کئے جائیں۔ ہماری سرحد میں ہمارے سپاہی شہید ہو رہے ہیں اور ہم خاموش بیٹھیں یہ کمزوری کی علامت ہوگی اور ایسا کرنے سے چین کے حوصلے مزید بلند ہونگے ۔ وہ آج سرحد پر کشیدگی پیدا کرتے ہوئے اپنے مفادات کی تکمیل میں جٹ گیا ہے اور کل اس کے عزائم مزید بلند ہوسکتے ہیں۔ چین کے عزائم کو یہیں روکنے کی ضرورت ہے اور اسے اس بات کا احساس دلانے کی ضرورت ہے کہ ہندوستان سب کچھ برداشت کرسکتا ہے لیکن اپنے فوجیوں کی شہادت نہیں۔
آج سارے ملک کے عوام کورونا وائرس اور اس سے ہونے والی معاشی تباہی سے پریشان ہیں۔ آج سارا ملک کورونا کی لڑائی میں مصروف ہے لیکن جب ایک کرنل اور دو فوجیوں کی شہادت کی خبر عام ہوئی تو سارے ملک میں برہمی کی لہر پیدا ہوئی ۔ سارے ہندوستان کو اپنی بہادر فوج پر کامل یقین ہے ۔ ہماری فوج ہماری سرحدات کی حفاظت کرسکتی ہے اور ہماری سرحدوں پر حملے کرنے والوں کو منہ توڑ جواب دیا جاسکتا ہے لیکن اس کیلئے سیاسی حوصلے اور عزم کی ضرورت ہے اور اسی کا نریندر مودی حکومت کو مظاہرہ کرنا چاہئے ۔ جب تک 56 انچ کا سینہ پھلا کر اور آنکھیں لال کرکے چین کو جواب نہیں دیا جائیگا اس وقت تک چین اپنے عزائم اور ناپاک منصوبوں سے باز آنے والا نہیںہے ۔ آج ہر ہندوستانی چاہتا ہے کہ چین کو آنکھیں لال کرکے منہ توڑ جواب دیا جائے ۔