کانگریس ‘ راجستھان اور بحران

   

پھر اس کے شہر میںجانے کی دھن سوار ہوئی
پھر اک سفر وہ مرے نام کرگیا شاید
ملک کی چند ریاستوں میں جاریہ سال کے اواخر تک اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔ ان میںایک ریاست راجستھان بھی ہے جہاں کانگریس برسر اقتدار ہے۔ راجستھان کی یہ سیاسی روایت رہی ہے کہ وہاں ہر پانچ سال میںاقتدار بدلا جاتا ہے ۔ ایک معیاد کیلئے کانگریس کو موقع ملتا ہے تو دوسری معیاد کیلئے بی جے پی اقتدار حاصل کرلیتی ہے ۔ اس بار راجستھان میں کانگریس اقتدار ہے اور جاریہ سال کے ختم تک وہاں انتخابات ہونے والے ہیں۔ ایسے میںکانگریس کی جانب سے ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے کہ قدیم سیاسی اور انتخابی روایت کو توڑتے ہوئے کانگریس لگاتار دوسری معیاد کیلئے اقتدار حاصل کرے ۔ چیف منسٹر اشوک گہلوٹ کی جانب سے کئی عوامی ترقی اور فلاح کے اعلانات کئے جا رہے ہیں۔ کانگریس پارٹی کی جانب سے بھی ریاست میں کامیابی کیلئے حکمت عملی تیار کی جا رہی ہے ۔ گذشتہ اسمبلی انتخابات میں کانگریس نے سچن پائلٹ کی صدارت میں کامیابی حاصل کی تھی اور سچن پائلٹ چاہتے تھے کہ ریاست میں انہیں چیف منسٹر کا عہدہ دیا جائے ۔ تاہم کانگریس نے اس مطالبہ کو ٹال دیا تھا ۔ دو سال بعد سچن پائلٹ نے کانگریس میں بغاوت کرنے کی کوشش کی تھی تاہم انہیں اس وقت منالیا گیا ۔ پائلٹ کو چند ہی ارکان اسمبلی کی تائید حاصل رہی تھی اس لئے انہیں پارٹی قیادت کے آگے جھکنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہ گیا تھا ۔ سچن پائلٹ کو ڈپٹی چیف منسٹر کے عہدہ اور پردیش کانگریس کی صدارت سے ہٹادیا گیا تھا ۔ اس وقت سے اشوک گہلوٹ جارحانہ تیور اختیار کئے ہوئے ہیں اور انہوں نے سچن پائلٹ کو چند ماہ قبل غدار بھی قرار دیدیا تھا ۔ دونوں ہی قائدین کے مابین رسہ کشی اور سرد جنگ کا سلسلہ جاری ہے ۔ کبھی کوئی کسی کو نشانہ بناتا ہے تو کبھی کوئی کسی کو نشانہ بناتا ہے ۔ راہول گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا کے موقع پر حالات کے بہتر ہونے کے آثار دکھائی دئے تھے ۔ یاترا کے دوران دونوں ہی قائدین کو اہمیت دی گئی اور دونوں ہی نے اختلافات کو کچھ وقت کیلئے بالائے طاق رکھ دیا تھا ۔ تاہم جیسے جیسے انتخابات قریب آرہے ہیں یہ دوریاں ایسا لگتا ہے کہ بڑھنے لگی ہیں۔
سچن پائلٹ اب ایک بار پھر اشوک گہلوٹ کو نشانہ بنانے میں مصروف ہوگئے ہیں۔ انہوں نے ریاست میں کرپشن کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرتے ہوئے منگل کو ایک روزہ بھوک ہڑتال کا اعلان کیا ہے ۔ یہ ایک طرح سے اشوک گہلوٹ کے خلاف اعلان بغاوت ہے اور پارٹی قیادت کو بھی اپنے تیور سے واقف کروانے کی ایک کوشش ہی ہے ۔ جہاں تک سچن پائلٹ کا سوال ہے تو اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ان کی جدوجہد اور کاوشوں کے نتیجہ ہی میں بی جے پی کے انتہائی عروج کے دور میں بھی کانگریس نے راجستھان میں اقتدار حاصل کیا تھا اور بی جے پی کو شکست دی تھی ۔ ان کے ساتھ ناانصافی کی گئی اور یہ عذر پیش کیا گیا کہ ان کیلئے ابھی سیاسی سفر بہت طویل ہے اور بہت مواقع مل سکتے ہیں۔ تاہم اس بار سچن پائلٹ چاہتے ہیں کہ ان کو ذمہ داری دیتے ہوئے انتخابات لڑے جائیں اور یہ اعلان کردیا جائے کہ کامیابی کی صورت میں سچن پائلٹ پارٹی کے وزارت اعلی امیدوار ہوسکتے ہیں۔ اشوک گہلوٹ چیف منسٹری کا عہدہ چھوڑنے کو تیار نہیں ہیں۔ اس کیلئے انہوں نے پارٹی صدر کے عہدہ کو قبول کرنے سے گریز کیا تھا ۔ ایسے میںدونوں قائدین کی رسہ کشی پارٹی کیلئے نقصان کا باعث ہوسکتی ہے ۔ خاص طور پر ایسے وقت میں جبکہ چند ہی مہینوں میں ریاست میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں ۔ یہ رسہ کشی بی جے پی کیلئے فائدہ کا باعث بن سکتی ہے اگر اس کو فوری ختم کرنے کیلئے قیادت کی جانب سے اقدامات نہیں کئے گئے ۔
حالانکہ راجستھان میں اقتدار ہر پانچ سال میں تبدیل کرنے کی روایت رہی ہے لیکن کانگریس اس روایت کو توڑنے کی ہر ممکن جدوجہد کر رہی ہے ۔ ایسے میں دو اہم اور سینئر قائدین کے اختلافات اور رسہ کشی پارٹی کیلئے نقصان کا باعث ہوسکتی ہے ۔ ایک دوسرے کے خلاف تنقیدوں سے عوام میں منفی پیام جائے گا ۔ پارٹی قائدین اور خاص طور پر راہول گاندھی اور پرینکا گاندھی کوا س معاملے میں سنجیدگی سے سرگرم رول ادا کرنے کی ضرورت ہے ۔ دونوں قائدین کو اعتماد میں لیتے ہوئے انہیں اختلافات کو ختم کرنے کی تلقین کی جانی چاہئے ۔ پارٹی کے مفادات میں ہائی کمان کی سرگرم کوششیں لازمی ہیں۔