کانگریس میں سدھار کی کوششیں

   

گذشتہ تقریبا آٹھ سال سے مسلسل انتخابی شکستوں کا سامنا کرنے والی کانگریس پارٹی شائد پہلی مرتبہ پوری سنجیدگی کے ساتھ پارٹی کے امکانات کو بہتر بنانے کا مقصد سامنے رکھتے ہوئے پارٹی کی صفوں میں سدھار لانے کی کوشش شروع کرچکی ہے ۔ پارٹی نے ویسے تو دو ماہ پہلے ہی سے یہ کوششیں شروع کردی تھیں تاہم یہ کوششیں ایسا لگتا ہے کہ اب قدرے تیزی اختیار کر رہی ہیں اور ان کی تفصیل منظر عام پر بھی آنے لگی ہے ۔ کانگریس نے پارٹی کو مستحکم کرنے اور تنظیمی ڈھانچہ کو مستحکم کرنے کیلئے اور انتخابی امکانات کو بہتر بنانے کیلئے حکمت عملی کے ماہر سمجھے جانے والے پرشانت کشور سے بھی بات چیت کی تھی ۔ ہپرشانت کشور نے پہلے پارٹی کی خامیوں اور کمزوروں کو واضح کیا اور ان کو دور کرنے کے اقدامات پر مشتمل بلیو پرنٹ بھی پارٹی کو پیش کیا ۔ کانگریس نے پرشانت کشور کو اپنی صفوں میں شامل ہونے کی دعوت دی اور انہیں کچھ ذمہ داریاںسونپی جانے والی تھیں۔ اس پر تفصیلی بات چیت بھی ہوئی ۔ تاہم پرشانت کشور کو یہ پیشکش قبول نہیں تھی ۔ وہ پارٹی میںشامل نہیں ہوئے ۔ حالانکہ کانگریس اور پرشانت کشور کے مابین تمام دروازے ابھی بند نہیں ہوئے ہیں تاہم کانگریس نے اپنے طور پر پارٹی میں سدھار اور بہتری لانے کی کوششیںشروع کردی ہیں۔ گذشتہ دنوں کانگریس ورکنگ کمیٹی کے اجلاس میں بھی اس پر غور و خوض کیا گیا تھا اور اب جودھپور میںسہ روزہ چنتن شیور میں بھی اس پر غور کیا جا رہا ہے ۔ کہا گیا ہے کہ کانگریس میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں لانے کی کوشش شروع ہوگئی ہے ۔ گاندھی پریوار کو چھوڑ کر ایک خاندان ایک ٹکٹ اصول لاگو کرنے کی بات ہورہی ہے ۔ اس کے علاوہ راجیہ سبھا کیلئے کسی ایک امیدوار کو محدود مرتبہ ہی موقع دینے کی سفارش کی گئی ہے ۔ پارٹکی عہدوں کیلئے عمر کی حد کا بھی تعین کرنے پر غور کیا جا رہا ہے ۔ یہ اقدامات کانگریس کے خیال میں پارٹی کے تنظیمی ڈھانچہ کو بہتر بنانے میں معاون ہوسکتے ہیں اور جب تنظیمی ڈھانچہ مستحکم ہوگا تو انتخابی امکانات بھی بہتر ہوسکتے ہیں۔ پارٹی کے کئی قائدین اپنے اپنے طور پر کچھ تجاویز بھی پیش کر رہے ہیں۔
کانگریس نے سبھی قائدین کو اعتماد میں لینے کی کوشش کرتے ہوئے کئی پیانلس مختلف امور پر رپورٹس پیش کرنے کیلئے قائم کئے ہیں۔ ایسا تاثر عام ہوتا جا رہا ہے کہ پارٹی چاہتی ہے کہ اس کی شکست اور کامیابیوں دونوں صورتوں میں سینئر قائدین ذمہ داری قبول کریں۔ صرف پارٹی قیادت پر الزام عائد کرتے ہوئے یا ذمہ داری عائد کرتے ہوئے تمام قائدین بری الذمہ نہ ہوجائیں۔ اسی لئے پرشانت کشور کے مسئلہ پر بھی کئی گروپس بنائے گئے تھے ۔ ان کی رپورٹس پر تبادلہ خال کیا گیا ۔ ان رپورٹس کی بنیاد پر ہی فیصلے کئے گئے ۔ ان کی بنیاد پر اقدامات کرتے ہوئے آگے کا سفر طئے کرنے سے متعلق اتفاق رائے پایا جاتا ہے ۔ تاہم ایک پہلو ایسا بھی ہے جس پر زیادہ توجہ کی ضرورت ہے اور وہ ہے پارٹی قیادت کا زیادہ واضح انداز میں سرگرم ہونا ۔ حکومت کے خلاف تیور جو جارحانہ بنانا ۔ عوام کے درمیان پہونچتے ہوئے رائے عامہ کو ہموار کرنا ‘ سبھی قائدین کو ایک دوسرے سے تال میل کرنے کی ہدایت دینا ۔ قائدین کے باہمی اور آپسی اختلافات کو ختم کرنے کی کوشش کرنا ۔ انہیں اپنے اقدامات کیلئے جوابدہ بنانا ‘ شکست اور کامیابی دونوں کی ذمہ داری مرکزی کے ساتھ مقامی قیادت پر بھی عائد کرنا ۔ اس طرح سے پارٹی قائدین میں زیادہ جوش و جذبہ پیدا کیا جاسکتا ہے ۔ پارٹی ذمہ داریوں اور انتخابات کیلئے ٹکٹس الاٹ کرنے میں قدیم روایات کے مطابق فیصلے کرنے کی بجائے بدلتے حالات اور تقاضوںکو بھی پیش نظر رکھنا ضروری ہے ۔
کانگریس نے جب یہ کوششیں شروع کی ہیں تو اسے فراخدلی کے ساتھ اپنی خامیوں اور کمزوریوں کو قبول کرنا ہوگا ۔ جب تک کمزوریوں اور خامیوں کا اعتراف نہیں ہوگا اس وقت تک انہیں دور کرنے کے اقدامات موثر ڈھنگ سے نہیں کئے جاسکیں گے ۔ داخلی اختلافات اور عہدوں کیلئے عمر کی حد کا تعین کرنا دو اہم امور ہوسکتے ہیں۔ اس طرح سے نوجوانوں کو موقع مل سکتا ہے ۔ انہیں زیادہ اہم ذمہ داریاں سونپی جاسکتی ہیں۔ انہیں جوابدہ بنایا جاسکتا ہے ۔ کانگریس نے اگر اب بھی اپنے آپ میںسدھار نہیں کیا تو پھر اس کیلئے آگے کا سفر اور بھی مشکل ہوجائیگا اورملک کے تئیں ذمہ داریوں کی تکمیل میں پارٹی ناکام ہوجائے گی ۔