کتنے کردار بے داغ بچ گئے

   

کتنے کردار بے داغ بچ گئے
بالی ووڈ کی فلموں میں اکثر و بیشتر جرائم کی دنیا پر فلمیں بنائی جاتی ہیں۔ یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ کس طرح سے جرائم کی دنیا کے بے تاج بادشاہوں کو کسی موڑ پر پولیس اور سیاستدان اپنے لئے استعمال کرتے ہیں اور پھر جب کام ختم ہوجاتا ہے تو اپنے کردار کو بے داغ رکھنے کیلئے مجرم کو ’ ٹھوک ‘ دیا جاتا ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ کانپور کے بدنام زمانہ مجرم وکاس دوبے کے ساتھ بھی وہی کچھ ہو ا جو اکثر فلموں میں بتایا جاتا ہے ۔ خود ہماری پولیس بھی اکثر وبیشتر ایک ہی کہانی کسی بھی انکاونٹر کیلئے دہراتی ہے کہ مجرم نے پولیس سے ہتھیار چھیننے کی کوشش کی اور فرار ہونے کی کوشش کی ۔ اسے خود سپردگی کیلئے کہا جاتا ہے اور وہ ایسا نہیں کرتا بلکہ اس پر فائرنگ کرتا ہے اور پولیس کی جوابی فائرنگ میں وہ مارا جاتا ہے ۔ وکاس دوبے در اصل فلمی کہانی کا کردار نہیں تھا بلکہ اترپردیش میں سیاست ۔ پولیس اور جرائم کی ساز باز کی دنیا کا مہرہ رہا تھا ۔ وہ کئی وزیروں اور عہدیداروں سے رابطوں میں تھا ۔ ان کے کام ’ نپٹا تا تھا ‘ ۔ کبھی وہ پولیس یا سیاستدانوں کیلئے کام کرتا تھا تو کو کبھی پولیس اور سیاستدان اس کے سر کا سائبان بن کر اس کی حفاظت کرتے ۔ اسے پولیس کی کارروائیوں اور جیل کی ہوا کھانے سے بچاتے تھے اور کسی بھی کیس میں اسے سزا نہیں دی جاتی تھی ۔ اس کی مثال ایک پولیس اسٹیشن میں سابق وزیر کے قتل کا مقدمہ ہے ۔ وکاس دوبے نے ایک پولیس اسٹیشن میں گھس کر ایک وزیر کو پولیس کی موجودگی میں قتل کردیا تھا ۔ تاہم جب اس کا مقدمہ عدالت میںچلا تو بشمول پولیس تمام گواہان اپنے بیانات سے منحرف ہوگئے ۔ کسی نے بھی وکاس دوبے کے خلاف گواہی دینے کی ہمت نہیں کی اور نتیجہ میں وہ عدالت سے بری ہوگیا ۔ اس کے بعد کسی اوپر ی عدالت میں اس براء ت کے خلاف کوئی اپیل تک دائر نہیں کی گئی ۔ ایسے ہی کئی اور معاملے ہیں جن میں وکاس دوبے اور سیاستدانوں اور پولیس اہلکاروں کے روابط اور ساز باز کے واضح اشارے موجود تھے لیکن ایسا لگتا ہے کہ سیاستدانوں اور پولیس اہلکاروں نے اب اس باب کو ہی ختم کردینے کا فیصلہ کیا تھا تاکہ ان کے کردار بے داغ بنے رہیں اور ان کے کالے کرتوتوں کا بھانڈہ نہ پھوٹ سکے ۔
آج صبح جب یہ خبر آئی کہ کانپور میں 8 پولیس اہلکاروں کو موت کے گھاٹ اتار کر فرار ہونے والا وکاس دوبے جو اجین سے گرفتار کرلیا گیا تھا وہ ایک انکاونٹر میں مارا گیا ہے تو اس پر کئی سوال پیدا ہوئے ہیں۔ چار گاڑیوں میں پولیس اہلکار موجود تھے اور وکاس دوبے محض فرد واحد تھا ۔ اس کے پاس کوئی ہتھیار تک نہیں تھا ۔ وہ پولیس تحویل میں تھا اور اگر واقعی اس نے وہاں سے فرار ہونے کی کوشش کی تو اسے گرفتار کرنے کیلئے پولیس کی گاڑیاں موجود تھیں۔ پولیس کا عملہ موجود تھا لیکن ایسا کرنے کی بجائے ایک مجرم کو بلی کا بکرا بناتے ہوئے درجنوں بلکہ سینکڑوں کرداروں کو داغدار ہونے سے بچا لیا گیا ۔ جو حالات ظاہر کرتے ہیں وہ ایک گہری سازش کے اشارے ہیں کیونکہ اب یہ اندیشے پیدا ہوگئے تھے کہ وکاس دوبے کو اگر قانون کے مطابق گرفتار کیا جاتا ہے ۔ اس سے تفتیش کی جاتی ہے تو کئی ایسے سیاسی چہرے اور وردی پوش پولیس اہلکار بے نقاب ہوجائیں گے جنہوں نے اپنے کالے کرتوتوں پر ابھی تک پردہ ڈالے رکھنے میں کامیابی حاصل کی تھی ۔ ان کی زندگی بھر کی محنت وکاس دوبے کے زبان کھولنے سے اکارت ہوجاتی ۔ ان کے جو اجلے چہرے عوام اور سماج میں ہیں وہ داغدار ہوجاتے ۔ یہ بھی ممکن تھا کہ کئی لوگ اپنی وردیوں اور اپنی کرسیوں سے محروم ہوجاتے ۔ ان ہی اندیشوں کے تحت محض ایک مجرم کو بلی کا بکرا بناتے ہوئے درجنوں افراد کا مستقبل بچالیا گیا ہے ۔
پولیس کا جو دعوی ہے اس میں کئی جھول بھی نظر آتے ہیں۔ چار گاڑیاں گذر رہی تھیں اور صرف وہی گاڑی الٹتی ہے جس میں وکاس دوبے ہوتا ہے ۔ گاڑی بھی اس احتیاط سے الٹتی ہے کہ گاڑی کو کوئی گزند نہیں پہونچتی ۔ وکاس دوبے آرام سے الٹی ہوئی گاڑی سے باہر آتا ہے اس وقت تک جو گاڑیاں صحیح سلامت تھیں ان میں سے کوئی باہر نہیں آتا ۔ پھر وکاس دوبے وہاں سے ہتھیار چھیننے کی کوشش کرتا ہے حالانکہ وہ تن تنہا تھا اور پولیس کے کئی اہلکار تھے ۔ پھر وہ وہاں سے فرار ہونے کی کوشش کرتا ہے ۔ پولیس والے آرام سے اپنی گاڑیوں سے باہر آتے ہیں اور اسے خود سپردگی کیلئے کہتے ہیں ۔ وہ ایسا نہیں کرتا اور پولیس پر فائرنگ کرتا ہے ۔ پولیس جوابی فائرنگ کرتی ہے اور وہ مارا جاتا ہے ۔ ایک ساری کہانی کی سی بی آئی کے ذریعہ انتہائی غیر جانبدارانہ تحقیقات لازمی ہیں ورنہ پولیس اور نظام قانون پر عوام کا بھروسہ ختم ہوجائیگا ۔