کتھوا گاؤں میں اس گھناؤنے جرم پر تقسیم اور انکار

,

   

مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ بے رحمی کا واقعہ منظرعام پر آنے کے بعد سے ہم خوف کے عالم میں رہ رہے ہیں۔ ایک 27سالہ مقامی شخص رامن کمار نے کہاکہ ”گاؤں کے لوگوں کے ذہنوں میں اب بھی ایک قسم کا خوف طاری ہے۔ اس بے رحمانہ جرم نے ہمارے گاؤں کا نام خراب کردیاہے“۔

کتھوا۔جموں کشمیر کے کتھوا ضلع کا راسانا گاؤں اس وقت سرخیوں میں آیا 2018جنوری میں ایک اٹھ سالہ قبائیلی لڑکی کو مندر میں محروس رکھا کر اس کی اجتماعی عصمت ریزی کے بعد پتھرسر پر مارکر قتل کردیاگیاتھا۔

مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ بے رحمی کا واقعہ منظرعام پر آنے کے بعد سے ہم خوف کے عالم میں رہ رہے ہیں۔ ایک 27سالہ مقامی شخص رامن کمار نے کہاکہ ”گاؤں کے لوگوں کے ذہنوں میں اب بھی ایک قسم کا خوف طاری ہے۔

اس بے رحمانہ جرم نے ہمارے گاؤں کا نام خراب کردیاہے“۔معصوم کے ساتھ عصمت ریزی او رقتل کے معاملہ میں پیر کے روز جب پنجاب کے پٹھان میں راسانا کے مقامی لوگوں کو عمر قید کی سزا سنائی جارہی تھی اس وقت گاؤں میں اکٹھا کثیر بھیڑ میں کمار بھی شامل تھا۔

اس گاؤں میں پندرہ کچے مکان ہیں اور اس میں ستر کے قریب لوگ رہتے ہیں جس میں زیادہ تر برہمن ہیں۔پیر کے روززیادہ تر مرد یا تو گاؤں کے باہر تھے یہ کافی دنوں سے جس فیصلے کا انتظار کیاجارہا ہے اس کو سننے کے لئے پٹھان کورٹ گئے ہوئے تھے۔

گاؤں کی مندر کی نگرانی کے لئے دو پولیس والوں کو تعینات کردیاگیاتھا‘ جہاں پر لڑکی کو گھسیٹ لے جانے کے بعد اس کی اجتماعی عصمت ریزی او ربے رحمی کے ساتھ قتل کردیاگیاتھا۔

مذکورہ مندر یادیواستھان کو بند کردیاگیاتھا وہیں دو قبائیلی بکر والوں کے گھر جس میں متوفی لڑکی کا بھی گھر شامل تھا‘ جو ں کا توں چھوڑدیاگیاتھا جو راسانا سے دو کیلومیٹر دور کے فاصلے میں واقع کوٹاہ علاقے میں تھا۔

متوفی لڑکی کے گھر والوں او روکیل کو جان سے ماردینے کی دھمکی ملنے کے بعد سپریم کورٹ پر دباؤ بناتے ہوئے معاملہ کی سنوائی2018مئی کو پنجاب منتقل کردی گئی۔

جموں کشمیر کرائم برانچ کے عہدیداروں کو 2018اپریل میں وکلاء کے ایک گروپ نے کتھوا کیس کی چارج شیٹ داخل کرنے سے روکنے کی کوشش کی تھی۔

اس کے علاوہ جموں کشمیر کی سڑکوں پر مارچ2018ملزمین کی گرفتاری کے خلاف بند او راحتجاجی مظاہرے بھی کئے گئے تھے۔

بھارتیہ جنتا پارٹی کے دو منسٹرس چودھری لال سنگھ او رچندر پرکاش گنگا جو اس وقت پیپلزڈیموکرٹیک کے ساتھ اتحاد کی حکومت کا جموں کشمیر میں حصہ تھے‘ بھی ہندو ایکتا منچ کے زیراہتمام منعقدہ احتجاج میں شامل ہوئے تھے۔

کمار نے زوردیا کہ اس میں کوئی گہری سازش ہے۔ اس نے مزیدکہاکہ قبائیلی گجر وں او ربکروالوں اور ہندوؤں کے درمیان گاؤں میں کبھی کوئی کشیدگی اور تصادم نہیں رہا۔

کمار نے جموں کشمیر پولیس کے کرائم برانچ پر اس وقت کی چیف منسٹر محبوبہ مفتی کے دباؤ میں اکر جانچ کو غلط انداز میں لے گئی۔

جموں کشمیر میں بی جے پی کے الائنس سے الگ ہوجانے کے بعد 2018جون میں مفتی اقتدار سے محروم ہوگئیں۔ایک اور مقامی اشوتوش شرما نے کہاکہ اس کیس میں کرائم برانچ کی جانب سے دائر کردہ چارج شیٹ میں ایک سچائی نہیں ہے۔

شرما نے کہاکہ ”اگر سانجی رام اصل سازشی ہے‘ تو جاس نے مندر کے قریب میں لڑکی کی نعش کیوں رکھا؟جبکہ سارا گاؤں سی بی ائی جانچ کی مانگ کررہا تھا‘ کیوں محبوبہ مفتی اس کے لئے تیار نہیں ہوئی؟۔

ان کی منشاء ظاہر ہوگئی ہے ان کا مقصد ہندو او رمسلمانوں کے درمیان میں اپنے ووٹ بینک کی سیاست کے لئے رغنہ پیدا کرنا تھا“۔

مذکورہ عصمت ریزی او رقتل معاملے میں جن تین لوگوں کو سزا سنائی گئی ان میں سے ایک 65سالہ رام بھی ہیں وہیں اس کے بیٹے وشال جانگوترملزمین میں واحد ہے جس کو بری کردیاگیا ہے۔

جموں کشمیر پولیس کے تین جوانو ں کو ثبوتوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کے الزام میں گرفتار کیاگیاہے۔

رام کی بیٹی مونیکا نے سوال کیااگر اس کے بھائی جرم میں ملوث نہیں ہے تو پھر کیوں ان کے والدکو اس قسم کی سازش میں پھنسایاگیاہے۔

مونیکا نے کہاکہ ”وشائل کی برات کرائم برانچ کی پوری چارج شیٹ کو غلط ثابت کرتی ہے۔ تمام واقعہ کی سی بی ائی جانچ ہونی چاہئے تاکہ معصوم بچی اور ہماری فیملی کو انصاف مل سکے“