کرناٹک میںہندوتوا ایجنڈہ

   

کرناٹک کو بی جے پی نے ہندوتوا ایجنڈہ کی لیباریٹری بنالیا ہے ۔ یکے بعد دیگرے ہندوتوا ایجنڈہ کے نکات کو ریاست میںنافذ کرتے ہوئے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ ہر مسئلہ کو فرقہ وارانہ رنگ دیتے ہوئے ماحول کو خراب کردیا گیا ہے ۔ عوام کے درمیان نفرت کی خلیج پیدا کردی گئی ہے ۔ لوگوںکو ایک دوسرے سے متنفر کرنے میںکوئی کسر باقی نہیں رکھی جا رہی ہے ۔ چاہے حجاب کا مسئلہ ہو یا پھر حلال گوشت کا مسئلہ ہو ۔ چاہے مسلم تاجروںسے خریداری کرنے کا مسئلہ ہو یا پھر کوئی اور مسئلہ ہو تعصب کو ہوا دی جا رہی ہے ۔ اب ریاست میں آر ایس ایس کے بانی ہیڈگیوار کی تقریر کو نصاب میں شامل کیا گیا ہے ۔ ہندو مذہبی کتابوں کو نصاب کا حصہ بنایا جا رہا ہے اور تاریخ کو مسخ کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی جا رہی ہے ۔ اس کے علاوہ مسلمانوںکو حملوں کا نشانہ بنانے کا سلسلہ بھی شروع کردیا گیا ہے ۔ کرناٹک میںہندوتوا تنظیموں کی جانب سے نوجوان لڑکے لڑکیوںکو ہتھیاروں کی ٹریننگ دینے کا سلسلہ تیز کردیا گیا ہے ۔ یہ ٹریننگ ویسے تو پہلے سے بھی دی جاتی ہے لیکن اب اس سلسلہ کو تیز کردیا گیا ہے ۔قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ہتھیاروں کی ٹریننگ دھڑلے سے دی جا رہی ہے اور حکومت یا نفاذ قانون کی ایجنسیاں پولیس اور دوسرے ادارے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ یہ کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا کہ یہ ایجنسیاں اورادارے بھی راست یا بالواسطہ طورپر اس ٹریننگ میںمدد کر رہے ہیں۔ ہتھیاروں کی ٹریننگ ملک کیلئے خطرناک ہوسکتی ہے ۔ اس سے سماجی ہم آہنگی اورامن و امان درہم برہم ہوسکتا ہے ۔ اس کے ذریعہ دوسرے طبقات میں خوف ودہشت کی لہر پیدا کی جا رہی ہے ۔ خاص طور پر مسلمانوں اور عیسائیوں کو نشانہ پر رکھتے ہوئے یہ کام کئے جا رہے ہیں۔ سبگ سے زیادہ تشویش کی بات یہ ہے کہ حکومت خود ایسی سرگرمیوںاور ایسی تنظیموںکی راست مدد کر رہی ہے جبکہ حکومت کو اسطرح کی سرگرمیوں کو روکنا چاہئے ۔ حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ قانون کی پابندی کو یقینی بنائے اور کسی کو بھی خلاف ورزی کی اجازت نہ دی جائے ۔
گذشتہ چند مہینوں میں کرناٹک کو بھی ہندوتروا ایجنڈہ کی لیباریٹری میں تبدیل کردیا گیا ہے ۔ یکے بعد دیگر اشتعال انگیز کارروائیوں کا سلسلہ جاری ہے ۔ ہر مسئلہ کو ہوا دینے کا مقصد مسلمانوں کو نشانہ بنانا ہی رہ گیا ہے ۔ر یاست کی بسوا راج بومائی کی حکومت عوام کی فلاح و بہبود اور بہتری کے اقدامات پر کم اور سماج میںنفاق اور نراج پیدا کرنے کے اقدامات پر زیادہ کام کر رہی ہے ۔ ترقیاتی اور فلاح و بہبود کے ایجنڈہ کو آگے بڑھانے کی بجائے ہندوتوا ایجنڈہ کو اپنی ترجیح بنالیا گیا ہے ۔ اس سے ساری ریاست کا ماحول متاثر ہوگیا ہے ۔ مسلم لڑکیوں کو حجاب کے نام پر تعلیم حاصل کرنے سے روکا جا رہا ہے ۔ ہندوتوا تنظیموں کو جہاں مسلمانوں کی تعلیم کھٹک رہی ہے وہیں ان کی معیشت کو بھی نشانہ بنانے سے گریز نہیں کیا جا رہا ہے ۔ تجارتی معاملات میں مسلمانوں کا عملا مقاطعہ اور بائیکاٹ کیا جا رہا ہے ۔ حکومت ایسے اداروں اور تنظیموں اور افراد کے خلاف کارروائی کرنے کی بجائے ان کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے ۔ قانون کو توڑ مروڑ کر اس سے کھلواڑ کے راستے نکالے جا رہے ہیں۔ دستور ہند میں موجود گنجائشوں کو پامال کرنے سے گریز نہیں کیا جا رہا ہے ۔ یہ سارا کچھ انتخابات کو پیش نظر رکھتے ہوئے کیا جا رہا ہے تاکہ انتخابات میں سیاسی فائدہ حاصل کیا جاسکے اور ریاست میںچور دروازہ سے جو اقتدار حاصل کیا گیا ہے اس کو برقرار رکھا جاسکے ۔
بی جے پی کو ریاست میں تنہا انتخابات میں کامیابی ملنی مشکل نظر آ رہی ہے ۔ ریاست کی معاشی حالت بھی مستحکم نہیں ہے ۔ حکومت کے کام کاج سے عوام مطمئن نہیں ہیں۔ وہ کئی طرح کے مسائل کا شکار ہیں۔ حکومت ان مسائل کو حل کرنے میں ناکام نظر آ رہی ہے ۔ اس کے علاوہ ریاست کے مقبول لیڈر یدیورپا بھی اب سرگرم نہیں ہیں ۔ ایسے میں بی جے پی کو شائد یہ احساس ہوچکا ہے کہ وہ تنہا اقتدار حاصل نہیںکرسکتی ۔ اس کے پاس عوام کے سامنے پیش کرنے کو کوئی کارنامہ نہیںہے ۔ ایسے میں اسے اپنا آزمودہ طریقہ کار ہندوتوا ایجنڈہ ہی ایک سہارا نظر آ رہا ہے اور اسی کو استعمال کیا جا رہا ہے ۔ اس طریقہ کار کو بدلا جانا چاہئے اور ریاست کے عوام کو بھی ایسی کوششوں کو عملا مسترد کردینے کی ضرورت ہے ۔