کرناٹک میں بی جے پی کی یاترا

   

اس سفر میں نیند ایسی کھو گئی
ہم نہ سوئے رات تھک کر سو گئی
کنیا کماری سے کشمیر تک کانگریس لیڈر راہول گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا کے بعد ایسا لگتا ہے کہ ملک میں یاتراوں کا موسم آگیا ہے ۔ کئی قائدین راہول گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا کی کامیابی کے بعد اپنے اپنے طور پر بھی یاتراوں کا اہتمام کرنے لگے ہیں۔ خود کانگریس میںبھی ایک اور یاترا کی منصوبہ بندی ہو رہی ہے جو ملک کے شمالی حصوںسے جنوبی حصوں تک نکالی جاسکتی ہے ۔ راہول گاندھی کی قیادت ہی میں یہ یاترا نکالی جائے گی اور اس کیلئے شیڈول اور پروگرام کو تیار کیا جا رہا ہے ۔ راہول گاندھی کی یاترا کے بعد آندھرا پردیش میں تلگودیشم لیڈر نارا لوکیش نے بھی ریاست گیر سطح پر یاترا کا آغاز کردیا ہے ۔ وہ بھی عوام کے درمیان پہونچ کر پارٹی کے انتخابی امکانات کو بہتر بنانے کی کوشش کرنے لگے ہیں۔ اسی طرح تلنگانہ میںکانگریس کے ریاستی صدر ریونت ریڈی کی جانب سے ہاتھ سے ہاتھ جوڑو یاترا شروع کردی گئی ہے ۔ اسی طرح کانگریس کے دوسرے قائدین بھی اپنے اپنے طور پر یاتراوں کا اہتمام کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ سب سے دلچسپ بات تو یہ ہے کہ بی جے پی کی جانب سے بھی کرناٹک میں ریاست گیر سطح کی یاترا کا اہتمام کیا جارہا ہے ۔ بی جے پی کرناٹک میںجاریہ سال کے اواخر میں انتخابات کا سامنا کرنے کی تیاریوں میں جٹ گئی ہے ۔ ان تیاریوں کو مزید مستحکم کرنے کیلئے اس یاترا کا اہتمام کیا جا رہا ہے ۔ ریاست میںچار مقامات سے بی جے پی یاترا کا آغاز کرنے کا فیصلہ کرچکی ہے ۔ کہا جا رہا ہے کہ کرناٹک میں بی جے پی کیلئے انتخابی حالات سازگار نہیںہیں۔ راہول گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا کے کرناٹک سے گذرنے کے بعد ریاست میں کانگریس کے انتخابی امکانات میں بہتری آئی ہے ۔ اس کے علاوہ بسوا راج بومائی کی حکومت سے پارٹی کے انتخابی امکانات متاثر ہوئے ہیں کیونکہ عوام اس حکومت کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہیں۔ کانگریس کی کارکردگی میں بہتری کے امکانات دکھائی دے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ سینئر لیڈر بی ایس یدیورپا نے انتخابی سیاست سے سبکدوشی اختیار کرلی ہے ۔ اس کے بھی بی جے پی پر منفی اثرات ہوسکتے ہیں۔
خود بی جے پی کے حلقوں میں بھی یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ کرناٹک اسمبلی انتخابات میں کامیابی حاصل کرنا بی جے پی کیلئے آسان نہیں ہوگا ۔ کانگریس کو ریاست میں مستحکم موقف حاصل ہے ۔ اس کے علاوہ حکومت کی کارکردگی سے عوام مطمئن نہیں ہیں۔ اس صورتحال میں بی جے پی نے ریاست میں فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے کے منصوبوں پر عمل شروع کردیا ہے ۔ ان مسائل کو بی جے پی پہلے ہی سے ہوا دیتی آ ئی ہے ۔ حجاب کے مسئلہ کو ایک بڑا مسئلہ بنا کر پیش کرتے ہوئے بی جے پی نے سماج میں دوریاں پیدا کرنے کی کوشش کی ہے ۔ اس کے علاوہ حلال گوشت کا مسئلہ اٹھایا گیا ۔ اس پر بھی اشتعال انگیز بیان بازیاں ہوئیں۔ اب کرناٹک میں ٹیپو ۔ ساورکر مباحث کا آغاز کردیا گیا ہے حالانکہ بی جے پی کے سینئر لیڈر یدیورپا کا کہنا ہے کہ ٹیپو۔ ساورکر مباحث کا انتخابات پر کوئی اثر نہیں ہوگا تاہم پارٹی قائدین عوام کے ذہنوں پر اثر انداز ہونے اور انہیں پراگندہ کرنے کی پوری کوشش کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ کئی اور نزاعی اور اختلافی مسائل ہیں جن پر بی جے پی نے توجہ کرتے ہوئے انہیں ابھارنا شروع کردیا ہے ۔ ان سب کے بعد اب بی جے پی کی جانب سے راہول گاندھی کی طرز پر ریاست گیر سطح کی یاترا کا آغاز کیا جا رہا ہے ۔ ریاست کے چار مختلف مقامات سے یہ یاترا شروع ہوگی ۔ ریاست کے چار اہم قائدین اس میں حصہ لیں گے اور پارٹی کے مرکزی قائدین اس یاترا کو جھنڈی دکھا کر روانہ کرنے والے ہیں۔
یاتراوں کے اس موسم میں قابل غور بات یہ ہوگی کہ یاتراوں کے ذریعہ عوام سے رابطے بحال کئے جاتے ہیں یا پھر ایک بار پھر نفرت کو ہوا دینے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ عوام کے درمیان پہونچتے ہوئے حکومت کی کارکردگی کو پیش کرنا چاہئے اور حکومت نے اب تک جو کام کئے ہیں ان کا رپورٹ کارڈ پیش کیا جانا چاہئے ۔ اگر ایسا نہیں کیا جاتا اور صرف منافرت پھیلانے کی کوشش کی جاتی ہے یا پھر صرف اشتعال انگیز بیان بازیاں کی جاتی ہیں تو اس یاترا سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا بلکہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی متاثر ہوگی ۔ ایسا کرنے سے سبھی کو گریز کرنا چاہئے ۔ سماجی یکجہتی اور ہم آہنگی سے کھلواڑ نہیں کیا جانا چاہئے ۔