کرناٹک کے گرجاگھر ہندوتو کے تحت پریشان‘ اب ایک او رحملہ

,

   

بیلگاوی میں اسمبلی سرمائی اجلاس کی رات یہ واقعہ پیش آیاہے۔ اس سیشن میں انسداد مذہبی تبدیلی کا ایک بل متعارف کروایاجائے گا۔


حیدرآباد۔ کرناٹک کے بیلگاوی کے ایک گرجا گھر میں ہفتہ کی دوپہر ایک شخص چاقو لہراتاہوا داخل ہوا اور نگران کار پادری کاتعقب کرنے لگا۔مذکورہ شخص سی سی ٹی وی فوٹیج میں گرجا گھر کے انچارج فادر فرانسیس ڈی سوزا کا ہاتھ میں چاقو لئے تعقب کرتاہوا دیکھائی دیا ہے۔ جب پادری نے اس شخص کو دیکھا تو وہ پیچھے ہٹ گئے۔

مذکورہ مصلح حملہ آوار فرار ہونے سے قبل فادر ڈیسوزا کا تعقب کرتا رہا۔ اس کے علاوہ ایک تار بھی اس شخص کے ساتھ دیکھا گیا حالانکہ واضح نہیں ہوا کہ یہ تار اس نے ساتھ میں کیوں رکھاتھا۔بیلگاوی میں اسمبلی سرمائی اجلاس کی رات یہ واقعہ پیش آیاہے۔

اس سیشن میں انسداد مذہبی تبدیلی کا ایک بل متعارف کروایاجائے گا۔جس کی اپوزیشن اور عیسائی گروپس کی جانب سے شدت کے ساتھ مخالفت کی جارہی ہے۔مذکورہ واقعہ کے پیش نظر اتوار کے روز سخت حفاظتی انتظامات میں گرجا گھر کے امور انجام دئے گئے ہیں اور معاملے میں تحقیقات کا بھی آغاز کردیاگیاہے۔

این ڈی ٹی وی کے ایک رپورٹ کے بموجب ایک سینئر پولیس افیسر نے دعوی کیاکہ ”گرجا گھر کے اردگرد میں حفاظتی انتظامات بڑھا دئے گئے ہیں۔ ہمارے پاس نگرانی والے فوٹیج ہیں۔ تحقیقات بھی جاری ہے“۔

اسی سال ستمبر میں 30ہندو تنظیموں کے ساتھ میٹنگ کے پیش نظر کرناٹک چیف منسٹر بسوارج ایس بومائی ے کہاتھا کہ ریاست میں بہت جلد انسداد مذہبی تبدیلی قانون لایاجائے اور انتظامیہ اس طرح کے قوانین کا جائزہ لے رہا ہے جو دیگر ریاستوں میں لاگو ہیں تاکہ قانون بنانے میں مدد مل سکے۔اپوزیشن کانگریس نے اس مسلئے پر کھل کر بیان دیاہے۔

پارٹی کے ریاستی صدر ڈی کے شیو ا کمار نے کہا ہے کہ مذکورہ بل کی منشاء عیسائیوں کونشانہ بنایاہے اور یہ ریاست میں سرمایہ کاری کو راغب کرنے کی کوششوں پر روک ہوگا۔

مذکورہ آرک بشپ بنگلورو پیٹر مچاڈو نے چیف منسٹر بومائی کو تحریر کرتے ہوئے زوردیا ہے کہ وہ اس قانون کی حمایت نہ کریں۔انہوں نے کہاکہ ”کرناٹک میں ساری عیسائی برداری نے اس مجوزہ مخالف تبدیلی مذہب بل کو مسترد کردیا ہے اور اس کی ضرورت پر سوال اٹھایاہے جبکہ موثر قوانین اور عدالتی احکامات پہلے سے نگرانی کرے کے لئے موجود ہیں“۔

مذکورہ آر ک بشپ نے قانون کے نفاذ کو عوامی حقوق کی خلاف ورزی قراردیاہے اور کہاکہ بالخصوص اقلیتی آبادی کے حقوق کی یہ خلاف ورزی ہے اور ائین کی دفعہ25او ر26کا حوالہ دیاہے۔

انہوں نے کرناٹک حکومت کی جانب سے سرکاری اورغیر سرکاری عیسائی مشنریوں کے سروے پر مشتمل ہدایت پر بھی سوال اٹھایا ہے جس میں ریاستی اداروں اور تنظیموں کو بھی شامل کیاگیاہے۔

ماضی میں بیلگاوی میں 17اکٹوبرکے روز ایک عیسائی لڑکے کے مسلم دوست لڑکی کے ساتھ پارک میں جانے پر نامعلوم افرادکا حملہ پیش آیاتھا۔ اس کے علاوہ 16اکٹوبر کے روز کرناٹک کے بیلگاوی کی سڑکوں پر ہندوتوا کارکنوں کی جانب ایودھا پوجا کے جشن کے دوران سڑکوں پر تلوار وں کے ساتھ رقص کرتے ہوئے دیکھا گیاتھا او ریہ ویڈیو سوشیل میڈیاپر کافی وائیرل بھی ہوا تھا۔

اکٹوبر2کے روز کرناٹک کے ضلع بیلگاوی میں ایک 24سالہ مسلم شخص کا سر کاٹ کر نعش کو ریلوے ٹریک پر پھینک دی گئی تھی اوراس لڑکے پر ہندو لڑکی کے ساتھ معاشقہ کاالزام تھا۔

مذکورہ لڑکے کی شناخت ارباز کے طور پر ہوئی تھی اورحملہ آواروں کے متعلق مانا جارہا ہے کہ کرناٹک میں رام سینا کے وہ کارکن ہیں۔