کوئلہ کی قلت و برقی بحران کا اندیشہ

   

ملک کو آئندہ دنوں میں کوئلہ کی شدید قلت کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے جس کے نتیجہ میں برقی کٹوتی کا سلسلہ بھی دراز ہوسکتا ہے ۔ سرکاری رپورٹس کے مطابق آئندہ تین چار ماہ کے دوران کوئلہ کی قلت میں اضافہ ہوسکتا ہے ۔ حکومت کی جانب سے کوئلہ کی درآمدات میں تیزی لانے کیلئے ہدایات جاری کی جاچکی ہیں لیکن فوری طور پر طلب کے مطابق سپلائی کے متاثر ہونے کے اندیشے برقرار ہیں اور صورتحال کی یکسوئی آسان نظر نہیں آتی ۔ کہا جا رہا ہے کہ داخلی طور پر حالات کا جائزہ لینے کے بعد عہدیدار تشویش کا شکار ہوچکے ہیں کیونکہ انہیں کوئلہ کی قلت کے نتیجہ میں برقی کے مسائل پیدا ہونے کا بھی اندیشہ ہے ۔ کہا گیا ہے کہ گذشتہ ستمبر میں کوئلہ کی جو طلب تھی اس سال اس میں مزید پندرہ فیصد کا اضافہ ہوگیا ہے جبکہ سپلائی میں اضافہ نہیں ہوسکا ہے ۔ حکام کا کہنا ہے کہ برقی کی طلب میں اضافہ کے نتیجہ میںکوئلہ کی کھپت میں اضافہ ہوا ہے اور کچھ مقامات پر کوئلہ کی پیداوار بھی کم ہوگئی ہے ۔ ایک ایسے وقت جبکہ سالانہ برقی کی طلب میں اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے کوئلہ کی سپلائی میں کمی کی وجہ سے صورتحال مشکل ہوگئی ہے ۔ ایک دیڑھ ماہ قبل بھی کوئلہ کی سپلائی کے تعلق سے اندیشے ظاہر کئے گئے تھے اور کہا گیا تھا کہ مشکل صورتحال میں برقی کی سربراہی متاثر ہوسکتی ہے ۔ تاہم اس وقت حکومت کی جانب سے فوری اقدامات کرتے ہوئے حالات کو بگڑنے سے بچایا گیا تھا ۔ اب صورتحال ایک بار پھر مشکل ہوتی جا رہی ہے ۔ صنعتی ضروریات ‘ گھریلو استعمال اور دیگر شعبہ جات کو نظر میں رکھتے ہوئے ہندوستان برقی کی قلت کا متحمل نہیں ہوسکتا ۔ ہماری ترقی کی رفتار پر اس کا بھی منفی اثر پڑسکتا ہے ۔ صنعتی پیداوار متاثر ہونے سے معیشت متاثر ہوگی جو پہلے ہی سے اچھی حالت میں نہیں ہے ۔ عالمی سطح پر جو صورتحال ہے وہ یوکرین ۔ روس جنگ کی وجہ سے بگڑگئی ہے ۔ کوئلہ کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوا ہے اور اس کے نتیجہ میں بھی درآمدات پر اثر ہوا ہے ۔ حکومت کو ساری صورتحال کو دیکھتے ہوئے موثر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ۔ صورتحال کو قابو سے باہر ہونے کا موقع نہیں دیا جانا چاہئے ۔
ہندوستان کی توانائی اور ایندھن کی ضروریات بہت زیادہ ہیں۔ 130 کروڑ سے زیادہ کی آبادی کی گھریلو ضروریات کی تکمیل اور صنعتوں کو درکار برقی کی سربراہی پر اثر نہیں ہونا چاہئے ۔ ہمارے جو پڑوسی ممالک ہیں وہ پہلے ہی مسائل اور بحران کا شکار ہیں۔ سری لنکا عملا دیوالیہ ہوچکا ہے ۔ وہاں عوام کو پٹرول اور برقی کیلئے مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ پاکستان کی صورتحال بھی سری لنکا سے زیادہ مختلف نہیں ہے ۔ پاکستان کے بڑے بڑے شہروں میں بھی یومیہ بارہ گھنٹوں تک کی برقی کٹوتی ہو رہی ہے ۔ اس کے اثرات وہاں کی معیشت پر بھی دکھائی دیتے ہیں۔ پاکستان کی معیشت برقی بحران کی وجہ سے ہمیشہ سے مشکلات کا شکار رہی ہے ۔ ہندوستان میں یہ صورتحال پہلے کبھی نہیں رہی تھی ۔ اب جبکہ حالات بدل رہے ہیں۔ عالمی سطح پر صورتحال بدلتی جا رہی ہے ۔ جنگ کی وجہ سے ساری دنیا پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں تو یقینی طور پر ہندوستان پر بھی اس کے اثرات مرتب ہونگے ۔ یہ اثرات اب دکھائی دینے لگے ہیں۔ کوئلہ کی درآمدات اور گھریلو پیداوار میں توازن بھی بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہوتا ہے ۔ اسی توازن کے نتیجہ میں صنعتی ضروریات کی تکمیل بھی ہوتی ہے اور کوئلہ برقی اسٹیشنوں کو بھی فراہم کیا جاتا ہے تاکہ وہاں برقی کی پیداوار کا سلسلہ جاری رہے اور صنعتی اور گھریلو ضروریات کی کسی رکاوٹ کے بغیر سپلائی برقرار رہ سکے ۔ اگر کوئلہ کی قلت کو دور کرنے میں کامیابی ملتی ہے تو پھر حالات کے بگڑنے کے اندیشے لاحق نہیں ہونگے ۔
اگر صورتحال پر فوری توجہ دیتے ہوئے بہتر نہیں بنایا گیا اور سپلائی اورطلب میں اضافہ ہوتا ہے تو پھر ہمارے لئے بھی مشکلات پیدا ہونگی ۔ گھریلو استعمال کیلئے بھی برقی سربراہی متاثر ہوسکتی ہے اور صنعتی شعبہ بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا ۔ صنعتی شعبہ کو برقی سربراہی متاثر ہوتی ہے تو اس کے راست اثرات معیشت پر پڑیںگے ۔ ملازمتیں متاثر ہوسکتی ہیں۔ پہلے ہی روزگار کا مسئلہ سنگین ہے ۔ مہنگائی عروج پر ہے ۔ برقی سربراہی میں کمی کے منفی اثرات مرتب ہونے کے نتیجہ میں معیشت اور بھی متاثر ہوسکتی ہے ۔ حکومت کو فوری حرکت میں آتے ہوئے حالات کو قابو سے باہر ہونے سے بچانے اقدامات کرنے ہونگے ۔
تلنگانہ میں سرمایہ کاری
تلنگانہ کے وزیر انفارمیشن ٹکنالوجی کے ٹی راما راؤ نے ڈاوس میں ورلڈ اکنامک فورم کے اجلاس میں شرکت کرتے ہوئے تلنگانہ کیلئے چار ہزار کروڑ سے زائد کی سرمایہ کاری حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے ۔ تلنگانہ ‘ ہندوستان کی سب سے نئی اور تیزی سے ابھرتی ہوئی ریاست ہے ۔ یہاں سرمایہ کاری کیلئے حکومت کی جانب سے موثر اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کیلئے بھی کوئی کسر باقی نہیں رکھی جا رہی ہے ۔ نئی کمپنیوں کے قیام کو ترجیح دی جا رہی ہے ۔ تاہم ریاست میں کئی کمپنیاں اور ادارے ایسے ہیں جہاں ملازمین کی اکثریت غیر مقامی ہے ۔ دوسری ریاستوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے ملازمتوں کا بڑا حصہ حاصل کرلیا ہے ۔ ایسے میں تلنگانہ کے باصلاحیت نوجوانوں کو اتنے مواقع نہیں مل پا رہے ہیں جتنے ملنے چاہئیں۔ اب جبکہ سرمایہ کاری مل رہی ہے ۔ کئی کمپنیاں قائم ہو رہی ہیں ایسے میں حکومت کو چاہئے کہ وہ ایسے اقدامات کرے کہ ملازمتوں کا بڑا حصہ تلنگانہ کے نوجوانوں کو مل سکے ۔ مقامی نوجوانوں کو موقع سے محروم کرتے ہوئے دوسری ریاستوں کے نوجوانوں کو مواقع فراہم کرنا تلنگانہ کے نوجوانوں سے حق تلفی کے مترادف ہوگا ۔