کورونا ‘ لہر نہیں سونامی ہے

   

خوب تھا پہلے سے ہوتے جو ہم اپنے بدخواہ
کہ بھلا چاہتے ہیں اور برا ہوتا ہے

دہلی ہائیکورٹ نے آج کوروناسے نمٹنے میںدہلی حکومت کی تیاریوںپر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے انہیں ناکافی قررا دیا اورایک ریمارک کیا کہ کورونا کی یہ دوسری لہر نہیں بلکہ یہ ایک سونامی ہے ۔ عدالت کا یہ ریمارک صد فیصد درست ہے ۔ جس طرح کی حالت سارے ملک میں پیدا ہوگئی ہے اور جو تباہی مچتی جا رہی ہے اسکو سونامی ہی کہا جاسکتا ہے ۔ سارا ملک کورونا کی تباہی جھیل رہا ہے ۔ ہر شہر اور ہر ریاست میںانسانی جانیں ہزاروں کی تعداد میں ضائع ہو رہی ہیں ۔ لاکھوںافراد یومیہ اس وائرس کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔ دواخانوں میں اب نئے مریضوں کوشریک کرنے کی کوئی گنجائش نہیںرہ گئی ہے۔ شمشان گھاٹ اورقبرستانوں میں مردوں کیلئے اور میتوں کیلئے جگہ باقی نہیں رہ گئی ہے ۔ آکسیجن کی قلت نے ایک طرح سے سارے ملک کے عوام کا سانس لینا مشکل کردیا ہے ۔ دواخانوںکے اندر سے قطع نظر دواخانوں کے باہر جو صورتحال ہے وہ لوگوں کا دل دہلادینے والی ہے ۔ صرف چند مقامات سے جو تصاویر سوشیل میڈیا کے ذریعہ باہر آئی ہیںانہوں نے حقیقت کا پردہ فاش کردیا ہے ۔ دہلی ہائیکورٹ نے توصرف دہلی حکومت کی تیاری پر سوال کیا ہے لیکن در اصل سارے ملک میں کوئی بھی حکومت ایسی نہیں ہے جس نے کورونا سے نمٹنے کیلئے پہلے سے کوئی تیاری کر رکھی ہو ۔ کوئی حکومت ایسی نہیں ہے جس کے اقدامات سے عوام کو کوئی راحت مل سکی ہو۔ ہر ریاست میں یہی تباہی اور نفسا نفسی کا ماحول ہے ۔ لوگ اپنے رشتہ داروںکی آخری رسومات میںشرکت کرنے سے گریز کر رہے ہیں۔ بچے اپنے والدین کی نعشوں کو شمشان میںچھوڑ کر فرار ہو رہے ہیں۔ کورونا سے متاثرہونے پر انہیں گھروں میںآنے کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے ۔ سارا کچھ ہوتا جا رہا ہے اور حکومتیںمحض زبانی جمع خرچ میں مصروف ہیں۔ انہوںنے اپنے طور پر کوئی تیاری نہیں کی اور نہ ہی عوام کو راحت پہونچانے کیلئے عملی طور پر کوئی اقدامات کئے گئے ۔ صرف اور صرف جملہ بازیوں سے عوام کو بہلایا جا رہا ہے۔ یومیہ ہزاروں اموات بھی حکومتوں کو ٹس سے مس کرنے میں کامیاب نہیں ہو رہی ہیں۔
جس طرح دہلی ہائیکورٹ نے ریمارک کئے ہیں ضر ورت اس بات کی ہے کہ سارے ملک کی صورتحال پر سپریم کورٹ حرکت میں آئے ۔ حالانکہ سپریم کورٹ نے بھی سارے واقعات کا نوٹ لیتے ہوئے کورونا صورتحال کو قومی ایمرجنسی قراردیا تھا اسی طرح اب حکومتوں کی جانب سے کئے جانے والے اقدامات ‘ ان کے دعووںا ور زمینی حقائق کا معزز عدالت کو جائزہ لینا چائے ۔ عدالتوں کے ذریعہ ہی حکومتوں کو احکام جاری کرتے ہوئے عوام کو راحت پہونچانے کی امید کی جاسکتی ہے کیونکہ حکومتوں کا جہاںتک سوال ہے ہر کوئی دوسروںکو ذمہ دار قرار دیتے ہوئے اپنے لئے کوئی نہ کوئی عذر یا بہانہ تلاش کرنے میں مصروف ہوچکا ہے ۔ ہر حکومت صرف عوام کو مشورے دینے تک محدود ہوکر رہ گئی ہے ۔ اگر حکومتوں سے سوال کیا جائے تو انہیں نشانہ بنانے کی روایت الگ سے چل پڑی ہے ۔ گذشتہ ایک سال میںکورونا کے نام پر حکومتوں نے کچھ نہیں کیا اور نہ ہی دواخانوں کی حالت کو سدھارنے کیلئے اقدامات کئے گئے ۔ آج حد تو یہ ہیکہ آکسیجن نہ ہونے سے لوگوں کی جانیں جا رہی ہیں۔ حکومتیں اپنے حیلے بہانے پیش کرنے میں مصروف ہیں۔ ادویات تک متاثرین کو نہیںمل رہی ہیں اور نہ ہی ویکسین کے تعلق سے کوئی واضح صورتحال ہے ۔ نہ کوئی حکمت عملی ہے کورونا سے نمٹنے کی حکومت کے پاس اور نہ ہی کوئی منصوبہ یا پروگرام ہے ۔ حکومتوں کے پاس صرف زبانی دعوے ہیں اور حقائق کو چھپانے والے عذر اور بہانے ہی ہیں۔
مرکزی حکومت ہو یا ملک کی تمام ریاستوں کی حکومتیں ہوں سبھی نے چل چلاو والا رویہ اختیار کیا ہوا ہے اور سنجیدگی سے اقدامات کی کمی واضح طور پر محسوس کی جا تی ہے ۔ کئی ریاستوں میں عدالتوں نے ریاستی حکومت کی عدم کارکردگی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے احکام جاری کئے ہیں۔ آج سارے ملک کیصورتحال اس بات کی متقاضی ہے کہ ملک کی عدالت عظمی اس سارے معاملے کو اپنے ہاتھ میںلے اور اپنی نگرانی میں حکومتوں سے عوام کیلئے راحت رسانی کے منصوبوں پر عمل کروائے ۔ حکومتوں کو جوابدہ جب تک نہیں بنایا جاتا اس وقت تک ان کی اسکیمات اور اقدامات میںکسی طرح کی سنجیدگی ممکن نہیں ہوسکتی ۔ حکومتیں صرف اپنے سیاسی مفادات کو ذہن نشین رکھتے ہوئے کام کرتی ہیں جبکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ موجودہ صورتحال میںقوم اور قوم کے مفاد کو ذہن میں رکھتے ہوئے کام کیا جائے ۔
معیشت پر پھر منفی اثرات
کورونا کی دوسری لہر نے سارے ملک میں تباہی مچائی ہوئی ہے اور عوام بد حال ہیں تو تجارت اور کاروباری سرگرمیاں بھی بری طرح سے ٹھپ ہو کر رہ گئی ہیں۔ فیکٹریوں اور کارخانوں پر اس کے منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ صنعتی پیداوار اور سرگرمیاں متاثر ہو رہی ہیں ایسے میں ملک کی معیشت کے متاثر ہونے کے اندیشے بے بنیاد نہیں ہوسکتے ۔ پہلے ہی گذشتہ سال کی کورونا وباء کے نتیجہ میں ملک کی معیشت پر بہت زیادہ منفی اثرات مرتب ہوئے تھے اور اس بار تو کورونا کی شدت کی کوئی انتہاء دکھائی نہیں دے رہی ہے ۔ ہزاروں افراد یومیہ اپنی زندگی ہار رہے ہیں اور لاکھوں افراد متاثر ہو رہے ہیں ایسے میں معاشی سرگرمیوں کے معمول کے مطابق رہنے یا پھر ان میں بہتری کی امید کرنا فضول ہی کہا جاسکتا ہے ۔ یہ اندیشے ظاہر کئے جا رہے ہیں کہ ہندوستان کی معیشت پر کورونا کی جاریہ لہر کے انتہائی منفی اثرات مرتب ہونگے اور ترقی اور ارتقاء کے جو نشانے مقرر کئے گئے ہیں ان کی تکمیل ہونی ممکن نہیں ہو پائے گی ۔ جہاں تک حکومت کا سوال ہے تو اس کی جانب سے کورونا وائرس سے نمٹنے اور اس پر قابو پانے کیلئے جو اقدامات کئے جا رہے وہ ہی ناکافی ہیں۔ حکومت عوام کو اس وباء سے راحت پہونچانے ہی میں ناکام ہے۔ سارے ملک میں آکسیجن تک بروقت فراہم نہیں کی جا رہی ہے تو ایسے میں معاشی سرگرمیوں کے تعلق سے کسی طرح کی امید کرنا فضول ہی ہے ۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ کم از کم معاشی سرگرمیوں کی سست رفتاری کے ساتھ ہی پیشرفت پر بھی توجہ کرے ۔ جب تک کورونا کی موجودہ لہر پر قابو پایا جائیگا اس وقت تک معیشت کا استحکام بھی اہمیت کا حامل ہے اور اس جانب توجہ دینا بھی ضروری ہوگیا ہے ۔