کورونا پر مرکز کے دعوے بے بنیاد

   

ایک ایسے وقت میں جبکہ سارے ملک میں کورونا پر قیامت صغری کے مناظر دیکھنے میں آ رہے ہیں مرکزی حکومت نے یہ ادعا کیا ہے کہ ہندوستان کورونا سے نمٹنے گذشتہ سال کی بہ نسبت اس سال زیادہ تیار ہے ۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہندوستان کی گذشتہ سال سے بہتر تیاری کے باوجود سال رواں گذشتہ کی بہ نسبت کئی گنا زیادہ تباہی آئی ہے ۔ یومیہ لاکھوں افراد کورونا سے متاثر ہونے لگے ہیں اور یومیہ ہزاروں افراد زندگی ہار رہے ہیں۔ دواخانوں کی حالت پر حکومتیں خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں جس پر عدالتیں ریمارکس پاس کرنے پر مجبور ہیں اور کئی ریاستوں میں تو عدالتوں نے لاک ڈاون یا نائیٹ کرفیو نافذ کرنے کے احکام اپنے طور پر جاری کئے کیونکہ حکومتیں تو عوام کی زندگیوں سقے لا تعلق بنی ہوئی تھیں اور ان کی نظر صرف آمدنی پر تھی اور عوامی صحت کوا نہوں نے یکسر فراموش اور نظر انداز کردیا تھا ۔ آج ملک کی کوئی بھی ریاست ایسی نہیں ہے جس کے تعلق سے کہا جاسکے کہ وہاں کورونا کا اثر کم ہے ۔ کوئی ریاست ایسی نہیں ہے جہاں یہ کہا جاسکے کہ اس نے عوام کو اس وباء سے بچانے کیلئے جنگی خطوط پر موثر انتظامات کئے ہوں اور عوام کو دواخانوں اور آکسیجن کی بہتر سہولیات فراہم کی ہوں۔ کوئی شہر اور ٹاون ایسا نہیں رہ گیا ہے جہاں عوام بے یار و مدد گار موت کا انتظار کرنے پر مجبور کردئے گئے ہوں ۔ ان سب کے باوجود مرکزی وزیر صحت ہرش وردھن کا یہ دعوی ہے کہ ہندوستان گذشتہ سال کی بہ نسبت اس سال کورونا سے نمٹنے زیادہ تیار ہے ۔ مسٹر ہرش وردھن نے انتہائی سنگین بحران کے وقت میں بھی وزیر اعظم کی مدح سرائی اور قصیدہ خوانی کا سلسلہ جاری رکھا اور کہا کہ وزیر اعظم نے ایک بڑی ٹیکہ اندازی مہم شروع کی ہے ۔ یہ وزیر اعظم نے شخصی طور پر شروع نہیں کی ہے بلکہ ایسا کرنا حکومت کا فرض اولین تھا ۔ اس ٹیکہ اندازی مہم کے باوجود یومیہ ساڑھے تین لاکھ سے زائد افراد کورونا سے متاثر ہو رہے ہیں۔ اموات کی تعداد بھی ہر روز بڑھتی جا رہی ہے ۔ دواخانوں میں بدحالی اور بد انتظامی روز کا معمول بن گیا ہے اس پر حکومت کسی طرح کی لب کشائی کیلئے تیار نہیں ہے ۔
ہندوستان کی تاریخ کے اس بدترین اور سنگین بحران کے باوجود حکومت محض زبانی جمع خرچ سے کام کرنے کی روایت ہی پر عمل پیرا ہے ۔ عوام کو کو حالات کی مار سہنے پر مجبور کردیا گیا ہے ۔ حد تو یہ ہے کہ آکسیجن جیسی بنیادی ضرورت بھی دواخانوں میں پوری نہیں کی جا رہی ہے ۔ لوگ آکسیجن کی قلت کی وجہ سے دم توڑتے جا رہے ہیں۔ کہیں آکسیجن کی سپلائی بند ہو رہی ہے تو کہیں دستیاب ہی نہیں ہے ۔ مرکزی حکومت صرف کا غذ پر ریاستوں کو آکسیجن کی سپلائی کے دعوے کر رہی ہے اور حقیقت میں صورتحال اس کے بالکل برعکس پائی جاتی ہے ۔ مرکزی حکومت اس بحران کے وقت میں اہم اور بہتر فیصلے کرنے کی بجائے ریاستوں پر ہی ذمہ داری عائد کرتے ہوئے بری الذمہ ہونا چاہتی ہے اور اس کی ساری توجہ صرف انتخابات میں کامیابی تک محدود ہو کر رہ گئی تھی ۔ عدالتوں کی جانب سے پھٹکار اور انتخابی ریلیوں میں عوام کی تعداد پر تحدیدات عائد کئے جانے کے بعد یہ ریالیاں اور جلسے وغیرہ بند کردئے گئے تاہم اب بھی آن لائین خطابات کا سلسلہ جاری ہے اور یہ دعوے بھی کئے جا رہے ہیں کہ ہزاروں افراد تک یہ تقاریر پہونچائی جا رہی ہیں۔ لاکھوں بلکہ کروڑوں افراد آکسیجن کی کمی کا شکار ہوگئے ہیں اس پر کسی کی توجہ نہیں ہے ۔ حکومت کے نمائندے اور اس کے ترجمان بھی صرف حکومت کی مدح سرائی میں لگے ہوئے ہیں اور زر خرید ٹی وی اینکرس بھی عوام کی اس مشکل کو حقیقی معنوں میں حکومتوں تک پہونچانے کی بجائے حکومت کے تلوے چاٹنے میں لگے ہوئے ہیں۔
مرکزی حکومت کو محض زبانی جمع خرچ پر اکتفاء کرنے کی بجائے حقیقی معنوں میں عوام کو راحت پہونچانے کے اقدامات پر توجہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ صرف دعوے کرنے سے صورتحال کو بہتر بنانے میں کامیابی نہیں مل سکتی ۔عوام کو زندگی اور موت کی جنگ میں مدد کرنے کی بجائے ایک دوسرے کی مدح سرائی ہماری موقع پرستی کو ظاہر کرتی ہے اور ہمیں اس سے گریز کرنا چاہئے ۔ آج ساری دنیا ہندوستان کی صورتحال پر متاسف ہے اور مدد کی پیشکش کی جا رہی ہے ۔ کم از کم ایسے وقت میں جھوٹ بیانی اور دروغ گوئی سے گریز کرتے ہوئے حقیقی معنوں میں عوام کو اس مہلک ترین وباء سے بچانے اور ممکنہ حد تک انہیں راحت پہونچانے کیلئے پوری سنجیدگی سے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ۔