کورونا ‘ کمیونٹی ٹرانسمیشن

   

مرنے والوں کو رو رہا ہے کیا
بیکسی دیکھ جینے والوں کی
کورونا ‘ کمیونٹی ٹرانسمیشن
دنیا بھر میں کورونا وائرس سے متاثرہ ممالک یمں ہندوستان چوتھے نمبر پر پہونچ گیا ہے۔ یہ اندیشے بھی ظاہر کئے جا رہے ہیں کہ ہندوستان بہت جلد امریکہ کے بعد دنیا کا دوسرا سب سے زیادہ متاثرہ ملک بن جائیگا ۔ یہاں یومیہ ہزاروں مریضوں کا اضافہ درج کیا جا رہا ہے اور یہ صورتحال ایسی ہے کہ ملک یں لک ڈاون کو عملا ختم کردیا گیا ہے ۔عوام بازاروں میں آگئے ہیں ‘ دوکانیں اور تجارتی ادارے کھولدئے گئے ہیں۔ عبادتگاہیں کھل گئی ہیں۔ لاکھوں مائیگرنٹس کی ایک سے دوسری ریاست کو نقل و حرکت عام ہوگئی ہے ۔ اس صورتحال میں کورونا وائرس کے متاثرین کی تعداد میں اضافہ ایک فطری بات ہے اور یہ اندیشے تقویت پاتے جا رہے ہیں کہ ہندوستان میں یہ وائرس اب کمیونٹی ٹرانسمیشن کے مرحلے میں داخل ہوگیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ متاثرین کی تعداد انتہائی تیزی کے ساتھ بڑھتی جا رہی ہے ۔ ساری صورتحال میں انڈین کونسل آف میڈیکل ریسرچ اور خود مرکزی حکومت کا دعوی ہے کہ ہندوستان میں ابھی اس وائرس کا کمیونٹی ٹرانسمیشن شروع نہیں ہوا ہے ۔ جب تعداد لاکھوں میں پہونچ گئی ہے اور یومیہ اوسطا 10 ہزار مریضوں کا اضافہ ہوتا جا رہا ہے تو پھر اس کو کمیونٹی ٹرانسمیشن نہیں تو پھر کیا کیا جائیگا ؟ ۔ اگر یہ کمیونٹی ٹرانسمیشن نہیں ہے تو پھر اس بات کی وضاحت کرنے کی ضرورت ہے کہ اتنی بھاری تعداد میں لوگ کس طرح سے متاثر ہو رہے ہیں۔ مہاراشٹرا میں متاثرین کی تعداد ایک لاکھ کو پہونچ رہی ہے ۔ دہلی میں متاثرین کی تعداد 35 ہزار کو پار کرنے والی ہے ۔ گجرات بھی اس میں پیچھے نہیں ہے ۔ دوسری ریاستیں بھی مسلسل کورونا مریضوں کی تعداد میں اضافہ کے چیلنج سے نمٹ رہی ہیں۔ ملک کی شائد ہی کوئی ریاست ایسی ہو جہاں متاثرین کی تعداد نہ ہو ۔ ملک کے تقریبا تمام بڑے شہر ایسے ہیں جو ایک طرح سے ہاٹ اسپاٹ بنے ہوئے ہیں۔ چاہے ممبئی ہو ‘ دہلی ہو ‘ کولکتہ ہو ‘ چینائی ہو ‘ حیدرآباد ہو ‘ احمد آباد ہو یا پھر کوئی اور شہر ہو ۔ ہزاروں کی تعداد میں لوگ یہاں کورونا سے متاثر ہیں اور عوام میں نراج جیسی کیفیت پیدا ہونے لگی ہے۔ عوام میں ایک انجانا سا خوف اور وحشت سی پیدا ہونے لگی ہے۔
آج ہی ایک سروے رپورٹ سامنے آئی ہے جس میں یہ دعوی کیا گیا ہے کہ ملک بھر میں کورونا وائرس کے جو ہاٹ اسپاٹس ہیں وہاں تقریبا 30 فیصد آبادی کورونا سے متاثر ہوئی ہے ۔ اگر یہ تجزیہ اور تحقیق درست ہے تو پھر متاثرین کی تعداد کا اندازہ لگانا زیادہ مشکل نہیںرہ جائیگا جو مزید لاکھوں میں ہوسکتی ہے ۔ جو سروے کیا گیا ہے اس میں ادعا کیا گیا ہے کہ ممبئی ‘ دہلی ‘ پونے اور احمد آباد ایسے شہر ہیں جہاں ہاٹ اسپاٹس میں تقریبا 30 فیصد تک عوام کے متاثر ہونے کے اندیشے ہیں۔ یہ جو اعداد و شمار ہیں وہ عوام کے ذہنوں میں مزید خوف اور وحشت پیدا کرنے کیلئے کافی ہیں۔ جو دعوے کئے جا رہے ہیں ان کے مطابق حکومتیں اس وائرس پر قابو پانے کیلئے ہر ممکنہ جدوجہد کر رہی ہیں تاہم جو رپورٹس سامنے آ رہی ہیں ان کے مطابق حکومتیں صرف سرکاری دواخانوں کو بھی بہتر انداز میں عوام کی خدمت کیلئے تیار کرنے میں بھی ناکام ہوگئی ہیں۔ سارے ملک نے دیکھا کہ مرکز اور ریاستی حکومتیں کس طرح سے مائیگرنٹس کے مسئلہ کو حل کرنے اور انہیں راحت پہونچانے میں ناکام رہی ہیں۔ سارے ملک نے دیکھا کہ کس طرح مائیگرنٹس کو ان کے حال پر چھوڑ دیا گیا کہ وہ حالات کی مار کھاتے ہوئے اور انتہائی شدت کی گرمی میں پیدل یا سائیکل یا رکشا پر سینکڑوں کیلومیٹر کا سفر طئے کرتے ہوئے اپنے گھروں کو پہونچے ۔ انہیںکھانے پینے تک کا کوئی مناسب انتظام حکومتوں کی جانب سے نہیں کیا گیا تھا ۔ بالآخر اس معاملہ میں عدالتوں کو مداخلت کرنی پڑی ۔
اب بھی اگر یہ دعوی درست ہے کہ ہندوستان میں وائرس کا کمیونٹی ٹرانسمیشن شروع نہیں ہوا ہے تو پھر جب یہ مرحلہ شروع ہوگا تو صورتحال کتنی سنگین ہوسکتی ہے اس کا اندازہ کرنا مشکل نہیں رہ جائیگا ۔ یہ حقیقت ہے کہ ہندوستان میں شرح اموات مغربی اور یوروپی ممالک کی بہ نسبت کم ہے لیکن یہ کوئی حکومت کی کامیابی نہیں ہے ۔ یہ ہندوستانی عوام کی قوت مدافعت ہے جس کی وجہ سے اموات کم ہو رہی ہیں۔ ابھی جبکہ یہ اندیشے شدت کے ساتھ ظاہر کئے جا رہے ہیں کہ آئندہ ایک تا دیڑھ ماہ مزید ابتر صورتحال پیدا کرسکتا ہے تو حکومت کو اپنے طور پر سرگرم ہوتے ہوئے حالات کو قابو سے باہر ہونے سے روکنے کے اقدامات اور منصوبہ بندی کرنی چاہئے ورنہ ہندوستان مے بھی شرح اموات بہت زیادہ ہوسکتی ہے ۔