کھرگے انڈیا اتحاد کے متوقع سربراہ

   

حوصلے سے تیرے ہمدم حوصلہ پاتے تھے ہم
راہ ہو پر خار کتنی ہی گزرجاتے تھے ہم
جیسے جیسے پارلیمانی انتخابات کیلئے وقت قریب آتا جا رہا ہے سیاسی جماعتوں اور گروپس کی سرگرمیوں میں اضافہ ہونے لگا ہے ۔ بی جے پی کی جانب سے رام مندر کی افتتاحی تقریب کو سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کرنے کا سلسلہ شروع کردیا گیا ہے ۔ اس کے علاوہ اس کی درپردہ تیاریاں اور سرگرمیاں بھی عروج پر پہونچ چکی ہیں۔ بی جے پی کی جانب سے مندر کے افتتاح کی تقریب کا سیاسی استحصال جہاں کیا جا رہا ہے وہیں اس مسئلہ پر اپوزیشن جماعتوں کو بھی نشانہ بنانے کی کوششیں شروع ہوچکی ہیں۔ دوسری جانب ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی کی ان کوششوںا ور سرگرمیوں کو خاطر میں لائے بغیر اپوزیشن جماعتوں پر مشتمل انڈیا اتحاد بھی اپنی تیاریاں شروع کرچکا ہے ۔ انڈیا اتحاد کی جماعتوں میں مقامی سطح پر نشستوں کی تقسیم کے مسئلہ پر مذاکرات بھی چل رہے ہیں۔ کانگریس کی اب تک عام آدمی پارٹی ‘ شیوسینا اور این سی پی کے ساتھ مشاورت ہوئی ہے ۔ اس کے علاوہ دوسری جماعتوں سے بھی متعلقہ ریاستوں کے مسئلہ پر مذاکرات چل رہے ہیں۔ ایسے میں آج انڈیا اتحاد کی جماعتوں کا آن لائین اجلاس منعقد ہواجس میں اتحاد کے صدر نشین کے عہدہ کیلئے کانگریس صدر ملکارجن کھرگے کے نام کی سفارش کردی گئی ہے ۔ کانگریس صدر نے اس مسئلہ پر سبھی جماعتوں سے جہاں اظہار تشکر کیا ہے وہیں انہوں نے اس پر ترنمول کانگریس لیڈر ممتابنرجی اور سماجوادی پارٹی صدر اکھیلیش یادو سے بات چیت کرنے کا اشارہ دیا ہے ۔ انڈیا اتحاد میں کانگریس کے بعد یہی دو جماعتیں زیادہ بڑی ہیں اور ان کی ریاستوں میں نشستوں کی تعداد بھی زیادہ ہے ۔ ان دونوں جماعتوں کے قائدین سے مشاورت انتہائی اہمیت کی حامل ہے ۔ حالات جس طرح کے بن رہے ہیں ان میں ان دونوں جماعتوں کے قائدین کو ناراض کرنے کا خطرہ نہیں مول لیا جاسکتا ۔ دونوں جماعتوں کی رائے اہمیت کی حامل بھی ہوگی اور یہ دونوں ہی اپنی اپنی ریاستوں میں جتنی زیادہ نشستوں پر کامیابی حاصل کرسکیں وہ اتنی اہمیت کی حامل ہوگی ۔ بی جے پی کو روکنے کیلئے مغربی بنگال اور اترپردیش میں اس کی نشستوں کی تعداد کو ممکنہ حد تک کم رکھنا ضروری ہے ایسے میں ملکارجن کھرگے نے ان سے بات چیت کا جو اشارہ دیا ہے وہ اچھی علامت ہے ۔
آج کے آن لائین اجلاس میں چیف منسٹر بہار و صدر جنتادل یونائیٹیڈ نتیش کمار کو اس اتحاد کا کنوینر بنانے کے تعلق سے بھی تبادلہ خیال ہوا ہے اور نتیش کمار نے اس میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی ۔ حالانکہ ملکارجن کھرگے اور نتیش کمار کے نام کی تجویز سے کسی نے بھی اختلاف نہیں کیا ہے اور یہی بات زیادہ اہمیت کی حامل ہے ۔ نتیش کمار کا کہنا تھا کہ وہ کسی عہدہ کے خواہاں نہیں ہیں اور وہ محض اتنا چاہتے ہیں کہ تمام جماعتوں میں اتحاد ہوجائے اور بی جے پی کا مشترکہ طور پر مقابلہ کیا جاسکے ۔ جب تک اپوزیشن ایک ہو کر اور متحدہ انداز میں بی جے پی کا مقابلہ نہیں کرے گی اس وقت تک اس اتحاد کی کامیابی کے امکانات کم سے کم ہی رہیں گے ۔ جہاں تک ملکارجن کھرگے کو صدارت دینے کی بات ہے تو وہ ایک انتہائی غیر نزاعی شخصیت کے مالک ہیں۔ ان کا سیاسی کیرئیر بھی بہت طویل رہا ہے ۔ وہ سنجیدہ سیاسی لیڈر کی شبیہہ رکھتے ہیں۔ دوسری اپوزیشن جماعتوں میں بھی ان کے تعلقات بہتر ہی ہیں۔ وہ نرم لہجہ اور دھیمے انداز کے ساتھ کام کرنے میں یقین رکھتے ہیں اور انڈیا اتحاد میں جتنی جماعتیں شامل ہوئی ہیں ان میں ایسے ہی کسی لیڈر کی ضرورت تھی تاکہ سبھی جماعتوں کو ساتھ لے کر چلنے میں کوئی دشواری پیش نہ آئے ۔ ملکارجن کھرگے اپنے بیانات میں بھی نپے تلے الفاظ ہی استعمال کرتے ہیں ۔ ایک تاثر یہ بھی ہے کہ وہ سونیا اور راہول گاندھی کے مشورہ کے بغیر کچھ نہیں کرتے ۔ یہ بات بھی اتحاد کے حق میں بہتر ہی کہی جاسکتی ہے کیونکہ قائدین جتنے زیادہ ذمہ دار ہونگے اتنا ہی اختلافات پیدا ہونے کے امکانات کم ہوسکتے ہیں۔ کھرگے کے نام پر ممتابنرجی اور اکھیلیش یادو کی رائے کیا ہوگی یہ زیادہ اہمیت کی حامل بات ہوسکتی ہے ۔
انڈیا اتحاد کی جماعتوں میں جہاں صدر نشین کا مسئلہ آگے بڑھا ہے وہیں ضرورت اس بات کی ہے کہ ملکارجن کھرگے ایک ذمہ دارانہ رول نبھانے کیلئے تیار ہوجائیں ۔ تمام جماعتوں کے جذبات اور احساسات کو پیش نظر رکھتے ہوئے نشستوں کی تقسیم پر بات چیت کو ممکنہ حد تک جلدی اور مثبت انداز میں تکمیل کو پہونچائیں۔ کسی طرح کے اختلافات کو پھلنے اور پھولنے کا موقع فراہم نہ کریں۔ اتحاد میںشامل تمام جماعتوں کیلئے بھی ضروری ہے کہ وہ اس مسئلہ پر لچکدار موقف اختیار کرتے ہوئے اپنے مقصد و منشاء کو اہمیت دیں اور صدر نشین کے مسئلہ کو جلد منطقی انجام تک پہونچاتے ہوئے اتحاد کی مستحکم کرنے کیلئے کام کریںا ور جتنا ممکن ہوسکے جلد عوام تک پہونچنے کی حکمت عملی کو قطعیت بھی دی جائے ۔
برطانوی سفیر کا دورہ مقبوضہ کشمیر
برطانوی سفیر برائے پاکستان جین میرئیٹ نے مقبوضہ کشمیر کا دورہ کیا اور انہوں نے میرپور میں اپنی مصروفیت کا ایک ویڈیو بھی سوشیل میڈیا پر پیش کیا ہے ۔ ہندوستان نے اس دورہ پر شدید اعتراض کرتے ہوئے اس دورہ کو ہندوستان کی علاقائی سلامتی میں ایک طرح کی مداخلت قرار دیا ہے ۔ مقبوضہ کشمیر کا جہاںتک سوال ہے حالانکہ اس پر پاکستان کا قبضہ ہے لیکن یہ علاقہ بھی ہندوستان کا اٹوٹ حصہ رہا ہے ۔ ہندوستان نے ہمیشہ ہی اس علاقہ کو بیرونی سفیروں اور نمائندوں کے دوروں پر اعتراض جتایا ہے ۔ برطانیہ کے پاکستان کے ساتھ بہتر تعلقات ہوسکتے ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ناقابل فراموش ہی کہی جاسکتی ہے کہ پاکستان سے زیادہ برطانیہ کے قریبی تعلقات ہندوستان سے ہیں اور یہ تعلقات بھی بہت مستحکم ہیں۔ دونوں ملکوں کے مابین عوام تا عوام رابطوں کو بھی اہمیت حاصل ہے ۔ دونوں ملکوں کے مابین تجارتی تعلقات بھی مسلسل مستحکم ہوتے جا رہے ہیں۔ تجارت میں بھی اضافہ ہورہا ہے اور برطانیہ میں فی الحال جو وزیر اعظم ہیں وہ ہندوستانی نژاد ہیں۔ ایسے میں برطانیہ کو ہندوستان کے ساتھ سفارتی تعلقات میں کشیدگی پیدا کرنے سے گریز کرنا چاہئے تھا ۔ نہ صرف مقبوضہ کشمیر ہندوستان کا اٹوٹ حصہ ہے بلکہ سارا کشمیر ہندوستان کا اٹوٹ حصہ ہے اور اس کا کو کئی ممالک نے قبول بھی کیا ہے ۔ ایسے میں برطانیہ کو ہندوستان کے جذبات و احساسات کا خیال رکھنا چاہئے تھا اور اس طرح کے دوروں سے گریز کرنا چاہئے ۔ ہندوستان سے تعلقات کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے برطانیہ کو اس پر وضاحت بھی کرنی چاہئے ۔