کیا کجریوال بھی جیل جائیں گے ؟

   

دہلی شراب اسکام کے تار اب مزید پھیلتے جا رہے ہیں اور دہلی کے وزراء و عام آدمی پارٹی قائدین کی گرفتاری کے بعد بات اب چیف منسٹر دہلی اروند کجریوال تک بھی آ پہونچی ہے۔ چیف منسٹر دہلی کو بھی انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ نے پوچھ تاچھ کیلئے جمعرات 2 نومبر کو طلب کیا ہے اور یہ اندیشے ظاہر کئے جا رہے ہیںکہ انہیں بھی اس کیس میں گرفتار کیا جائیگا ۔ خاص بات یہ ہے کہ اروند کجریوال کی طلبی سابق ڈپٹی چیف منسٹر منیش سیسوڈیا کی درخواست ضمانت سپریم کورٹ میں مسترد ہونے کے چند ہی گھنٹوں کے بعدعمل میں آئی ہے حالانکہ بی جے پی ؎کے قائدین مسلسل یہ کہتے رہے تھے کہ اب کجریوال کا نمبر ہے اور انہیں بھی گرفتار کیا جائیگا ۔ جہاں تک منیش سیسوڈیا کی درخواست ضمانت کی بات ہے تو درخواست مسترد کیا جانا ایک طرح سے عام آدمی پارٹی کیلئے ایک دھکا ہے ۔ سابقہ سماعت میںسپریم کورٹ کے جج نے جو رائے ظاہر کی تھی اس سے یہ تاثر مل رہا تھا کہ منیش سیسوڈیا کے خلاف تحقیقاتی ایجنسی کوئی ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہی ہے تاہم بعد میں عدالت نے درخواست ضمانت مسترد کرتے ہوئے واضح کیا کہ اس معاملہ میں تین سو کروڑ روپئے سے زیادہ کا رقمی الٹ پھیر ہونے کے امکانات ہیں۔ ایسے میں عام آدمی پارٹی جو اس اسکام میں کسی طرح کے ثبوت و شواہد نہ ہونے کی بات کر رہی ہے وہ غلط بھی ہوسکتی ہے ۔ اب جبکہ منیش سیسوڈیا کی درخواست ضمانت مسترد کردی گئی ہے اور خود اروند کجریوال کو بھی پوچھ تاچھ کیلئے طلب کرلیا گیا ہے تو یہ اندیشے پیدا ہونے لگے ہیں کہ کجریوال کو بھی گرفتار کیا جاسکتا ہے ۔ اگر واقعی کجریوال کو گرفتار کرلیا جائے تو پھر ایک ایسی صورتحال پیدا ہوگی جس کا عام آدمی پارٹی کو اب تک سامنا کرنا نہیں پڑا ہے ۔ پارٹی اور دہلی کی حکومت چلانے کا مسئلہ پیدا ہوجائیگا اور چونکہ اہم قائدین جیل میں ہیں ایسے میں صورتحال اور بھی مشکل ہوسکتی ہے ۔ منیش سیسوڈیا جیل میں ہیں ۔ سنجے سنگھ رکن پارلیمنٹ جیل میں ہیں اور اگر کجریوال بھی وہیں پہونچ جاتے ہیں تو عام ادمی پارٹی کیلئے اپنے وجود کی جنگ لڑنی بھی مشکل ہوجائے گی اور اس کا شیرازہ بکھرنے کے اندیشوں کو مسترد نہیں کیا جاسکتا ۔
اس کیس کے قانونی پہلووں کی تفصیل میں گئے بغیر سیاسی اثرات کا جائزہ لیا جائے تو اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ بی جے پی کی ساری کوشش یہی ہے کہ کسی طرح عام آدمی پارٹی کو نشانہ بنایا جائے اور اسے مشکلات کا شکار کرتے ہوئے کرپشن سے پاک ہونے کے اس کے دعووں کی قلعی کھول دی جائے ۔ دہلی حکومت اور عام آدمی پارٹی میں چونکہ ہر شئے کا دار و مدار کجریوال پر ہے اس لئے انہیں نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ حالانکہ کجریوال کے پاس کوئی قلمدان نہیں ہے لیکن کسی بھی وزرات کا کوئی بھی کام کجریوال کی منظوری کے بغیر ممکن نہیں ہے اسی لئے ان کو گھیرے میں لینا آسان ہوگیا ہے ۔ تاہم ای ڈی کے سمن کی اجرائی سے قبل ہی بی جے پی قائدین کا یہ کہنا بھی قابل غور ہے کہ چند ہی دنوں میں کجریوال کو بھی طلب کیا جائیگا اور ان کو بھی گرفتار کیا جائیگا ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ای ڈی کی کارروائیوں کا قبل از وقت بی جے پی قائدین کو علم ہوجانا کس طرح سے ممکن ہے ؟۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ بی جے پی ہی پس پردہ سارے کیس کی تفصیلات کا تعین کر رہی ہے ۔ کہیں بی جے پی ہی نے تو سارا پروگرام طئے نہیں کردیا ہے جس کا عام آدمی پارٹی اورا س کے قائدین کی جانب سے الزام عائد کیا جا رہا ہے ۔ اگر ایسا ہے تو پھر یہ الزامات بھی بے بنیاد نہیں ہوسکتے کہ بی جے پی ہی سارا کچھ ڈرامہ تیار کر رہی ہے ۔ نفاذ قانون کی ایجنسیاں آزادانہ طور پر اور قانون کے مطابق جو بھی کارروائی کرتی ہیں ان پر کوئی سوال نہیں لیکن سیاسی پہلو سے قبل از وقت ہوے والے انکشافات ان الزامات اور شبہات کو تقویت عطا کرتے ہیں جو عام آدمی پارٹی عائد کرتی ہے ۔
تحقیقاتی ایجنسیوں کے بی جے پی کی جانب سے بیجا استعمال کے الزامات سارے ملک میں عام ہیں اور تقریبا ہر سیاسی جماعت یہ الزام عائد کرتی ہے ۔ قانونی امور اور عدالتی رائے کو دیکھنے کے بعد یہ کہا جاسکتا ہے کہ عام آدمی پارٹی کیلئے ملک کی دوسری اپوزیشن جماعتیں ایک حد سے زیادہ تائید و حمایت فراہم نہیں کرپائیں گی تاہم سیاسی اعتبارسے یہ جماعتیں ضرور بی جے پی قائدین کے بیانات اور پھر اس کے بعد اسی طرح سے ہونے والی کارروائیوںپر ضرور سوال اٹھائیں گی ۔ جو شبہات کجریوال کی گرفتاری کے تعلق سے پیدا ہونے لگے ہیں اس میں عام آدمی پارٹی کے مستقبل پر بھی سوال پیدا ہونے لگے ہیں اور دیکھنا یہ ہے کہ اس امکانی صورتحال سے پارٹی اور اس کے قائدین کس طرح سے نمٹیں گے ۔