کے سی آر کا مختلف ریاستوں کا دورہ

   

چیف منسٹر تلنگانہ کے چندر شیکھر راؤ ملک کی مختلف ریاستوں کے دورہ پر روانہ ہوگئے ہیں۔ حالیہ عرصہ میں کے سی آر کے تیور میں کافی تبدیلی آئی ہے ۔ ریاست کی سیاسی صورتحال ہو یا پھر قومی سطح پر بی جے پی حکومت سے ٹکراؤ ہو کے سی آر نے جارحانہ تیور اختیار کرلئے ہیں۔ کئی امور پر اور اہم و نازک مواقع پر نریندر مودی حکومت کی راست یا بالواسطہ تائید کرتے ہوئے حکومت کو مشکل صورتحال سے بچانے والے کے سی آر کو جب خود ریاست میں بی جے پی کی سرگرمیوں اور عزائم سے تشویش لاحق ہوئی تو انہوں نے بی جے پی کے خلاف محاذ کھول دیا ہے ۔ وہ اپوزیشن جماعتوں کو متحد کرنے کی کوشش بھی کر رہے ہیں۔ کئی قائدین سے بات چیت کرتے ہوئے انہیں ایک پلیٹ فارم پرجمع کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ جس طرح سے بی جے پی سے دوری بنانا چاہتے ہیں اسی طرح سے کانگریس سے دوری کو ختم کرنے کو بھی تیار نہیں ہیں۔ اسی وجہ سے اپوزیشن کے تمام قائدین سے ان کا اتفاق رائے نہیں ہو پا رہا ہے ۔ کچھ علاقائی اور قومی جماعتیں جہاں کانگریس کے بغیر تیسرا محاذ تشکیل دینے کوشاں ہے تو وہیں کئی جماعتیں ایسے بھی ہیں جو اب بھی بی جے پی کے کسی بھی متبادل کو کانگریس کے بغیر ممکن نہیں سمجھتیں۔ اس صورتحال نے کے سی آر کے قومی مشن کو مشکل کردیا ہے ۔ علاقائی جماعتوں سے اتحاد کی کوششوں میں مشکلات کو پیش نظر رکھتے ہوئے کے سی آر نے اپنی پارٹی ٹی آر ایس کو قومی سطح پر وسعت دینے کے اشارے بھی دئے ہیں لیکن یہ کام بھی آسان نظر نہیں آتا ۔ وہ اپنے مشن کو تفصیلی طور پر ظاہر کرنے سے بھی گریز کر رہے ہیں اور اپنے طور پر کچھ قائدین کے ساتھ نجی اور شخصی ملاقاتوں میں صورتحال پر تبادلہ خیال کیا جا رہا ہے ۔ ان کے مشن کی تفصیلات کے ظاہر نہ ہونے کی وجہ سے بھی دوسری جماعتیں کھل کر ان کے ساتھ کام کرنے میں پس و پیش کا شکار ہو رہی ہیں۔ حالانکہ کچھ قائدین ضرور ان سے بات چیت کر رہے ہیں لیکن کھل کر اور مکمل تعاون کرنے سے وہ بھی گریزاں ہیں۔ جہاں کے سی آر کو اپنی کوششوں میں کچھ کامیابی مل رہی ہے تو کچھ ناکامیاں بھی ان کے ساتھ آ رہی ہیں۔
اب جبکہ کے سی آر نے اپنے قومی دورہ کا آغاز کردیا ہے تو یہ واضح نہیں ہے کہ اس کا مقصد کیا ہے ۔ وہ بی جے پی مخالف محاذ بنانے سرگرم ہوئے ہیں یا پھر مرکزی حکومت کے کچھ فیصلوں اور اقدامات کے خلاف کچھ علاقائی جماعتوں کو اپنا ہمنوا بنانا چاہتے ہیں۔ وہ دہلی میں توقف کے بعد پنجاب بھی جائیں گے ۔ وہاں کسانوں کو امداد فراہم کرنے کے بعد بنگلورو جائیں گے ۔ وہ بہار کے د ورہ کا بھی پروگرام رکھتے ہیں۔ کے سی آر نے یہ واضح نہیں کیا ہے کہ ان کے دورہ کا مقصد کیا ہے اور وہ دوسری جماعتوں کے قائدین کے ساتھ کس مسئلہ پر بات چیت کرنا چاہتے ہیں۔ ان کا ایجنڈہ کیا ہے اور کیا دوسری جماعتوں نے ان کے ایجنڈہ پر بات چیت سے اتفاق بھی کیا ہے یا نہیں ؟ ۔ موجودہ صورتحال میں کے سی آر کو تلنگانہ پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت بھی محسوس ہو رہی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ریاست میں بی جے پی قائدین کی سرگرمیوں میں اضافہ پر ٹی آر ایس قائدین کی جانب سے شدید رد عمل ظاہر کیا جا رہا ہے ۔ بی جے پی کے مرکزی قائدین کے دوروں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اور ان کی تلنگانہ میں ہونے والی تقاریر کا سخت جواب دیا جا رہا ہے ۔ ریاست میں بی جے پی کی سرگرمیوں کو دیکھتے ہوئے چندر شیکھر راؤ بی جے پی کو قومی سطح پر نشانہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ تاہم ان کی یہ حکمت عملی کس حد تک کامیاب ہوگی یہ ابھی کہا نہیں جاسکتا ۔ قومی سطح پر صورتحال سے نمٹنے کی بی جے پی میں اہلیت ہے لیکن یہ کوشش تلنگانہ میں کے سی آر کیلئے کتنی سود مند ثابت ہوگی یہ نہیں کہا جاسکتا ۔
کے سی آر جب ایک ہفتہ طویل دورہ کرنے کے بعد حیدرآباد واپس ہونگے اس وقت کیا صورتحال ہوگی یہ مختلف قائدین سے ہونے والی ان کی بات چیت کے بعد ہی واضح ہوسکتا ہے ۔ فی الحال یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ چونکہ وزیر اعظم نریندرمودی 26 جولائی کو حیدرآباد کا دورہ کرنے والے ہیں ایسے میں کے سی آر ان کے استقبال کیلئے شہر میں موجود رہنا نہیں چاہتے ۔ اسی لئے انہوں نے اس دورہ کو قطعیت دی ہے ۔ ان کے دورہ کے مقاصد چاہے کچھ بھی ہوں کے سی آر کو قومی سطح پر سرگرمیوں کے عوض تلنگانہ میں اپنی گرفت کو کمزور نہیں کرنا چاہئے ۔ انہیں ریاست کی صورتحال کو پیش نظر رکھتے ہوئے حکمت عملی تیار کرنی چاہئے ۔